نوابزادہ نصراللہ خان…آج بھی یاد آ رہے ہیں
26ستمبر 2003ء کو ایک تابناک ماضی، بے مثال روایات کا حامل اور شاندار سیاسی جمہوری جدوجہد کی تاریخ رکھنے والا شخص ہمیں چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔
نواب زادہ صاحب نصراللہ خان 1918ء میں خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی۔ وہ 1933ء تک ایک طالب علم رہنما کے طور پر معروف ہو چکے تھے۔ وہ اس عظیم الشان اور تاریخی اجتماع میں موجود تھے جنہوں نے 23 مارچ 1940ء کی قرار داد لاہور پاس کی۔ آزاد ی کے بعد وہ 1952ء میں صوبائی اور 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1964ء میں صدارتی انتخابات میں ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے ایوبی آمریت کے خلاف اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو متحد کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس طرح ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی وجود میں آئی جس نے ایوب خاں کی حکومت کیخلاف عوامی جدوجہد کی راہ ہموار کی۔ نواب زادہ صاحب 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کے اہم ترین رہنمائوں میں سے ایک تھے۔ 1977ء کے الیکشن میں وہ قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے وہ قومی اتحاد کی طرف سے لئے الیکشن کے لئے پیپلز پارٹی کے ساتھ مذاکرات کرنیوالی ٹیم کے رکن تھے لیکن جب مذاکرات کامیاب ہو گئے تو جنرل ضیاالحق نے مارشل لاء لگا دیا جس کی انہوں نے بھرپور مخالفت کی۔ یہ نواب زادہ صاحب کا سیاسی کرشمہ تھا کہ وہ تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی میں نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ان سیاسی جماعتوں کوبھی اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو گئے جنہوں نے بھٹو حکومت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی پلیٹ فارم سے 1983ء میں سول نا فرمانی کی تحریک شروع کی گئی جسے فوجی آمریت نے نہایت بے رحمی سے کچل دیا۔ اس تحریک کے دوران ہزاروں لوگوں نے قید و بند کی مصیبتیں جھیلیں اور جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ضیائی آمریت نے انہیں پانچ سال تک گھر میں نظر بند رکھ۔ 1988ء کے صدارتی انتخاب میں انہوں نے غلام اسحاق خان کا مقابلہ کیا۔ 1993ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ انہیں کشمیر کمیٹی کا چئیرمین بنایا گیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے انہوں نے بہت سے ملکوں کے دورے کئے اور انکی کوشش کے نتیجے میں اسلامی ملکوں کی تنظیم کے سربراہی اجلاس منعقد کاسابلانکا میں ایک متفقہ قرارداد میں کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ نوابزادہ نصراللہ نے اپنی زندگی میں عدلیہ اور میڈیا کی آزادی ، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کیلئے بھرپور جدوجہد کی، جمہوریت ان کی محبوبہ تھی جس کیلئے وہ تمام عمر جدوجہد کرتے رہے۔ جمہوریت کو اپنی منزل قرار دیتے تھے اور جمہوریت کو ہی ملک کے مسائل کا حل۔ اس مقصد کیلئے سیاسی اتحاد قائم کئے۔ انکا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی چھتری تلے بڑے بڑے مخالفوں کو اکھٹا کر لیتے تھے۔ جنرل ایوب خان کیخلاف اتحاد بنایا، ذوالفقار علی بھٹوکیخلاف پاکستان قومی اتحاد، جنرل ضیاالحق کیخلاف تحریک بحالی جمہوریت، میاں نواز شریف کیخلاف پاکستان عوامی اتحاد ، اور جی ڈی اے جبکہ انکی زندگی کی آخری ’’تحریک‘‘ اور سیاسی اتحاد اے آر ڈی تھا جو کہ جنرل مشرف کیخلاف بنایا گیا۔ آج ملک میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری بظاہر علیحدہ علیحدہ میاں نواز شریف کیخلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ اور اس مقصد کیلئے 44 دن سے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا ہے۔ بدقسمتی سے دونوں رہنمائوں کی دھرنا تحریک جمہوریت کیلئے نہیں ہے دونوں کا مقصد صرف اور صرف میاں نواز شریف کو ہٹانا ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کا جمہوریت پر شائد کبھی اتفاق نہیں تھا۔ مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان نے ڈاکٹر طاہر القادری کو پاکستان عوامی اتحاد کی صدارت دے کر جمہوریت کی جدوجہد میں شامل کیا۔ بعدازاں عمران خان کو بھی جمہوری تحریک میں شامل کر ا کر ایک نیا اتحاد جی ڈی اے بنایا۔ یہ مرحوم کا ہی کمال تھا کہ ان دونوں رہنمائوں کو جمہوری سوچ نہ ہونے کے باوجود جمہوریت کیلئے کام کرنے پر مجبور کر دیا۔ نواب زادہ صاحب نے ستر سالوں پر پھیلی سیاسی زندگی میں آمریت کیخلاف کئی اتحاد بنائے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کسی ایک پارٹی کیلئے ممکن نہیں کہ فوجی آمریت کا مقابلہ کر سکے۔