کون بتائے گا؟
حکومت بتائے کیا مجبوری ہے کہ بجلی پر سبسڈی ختم کی کیا عوام کو سہولتیں دینا حکومت کا کام نہیں؟ ’’سپریم کورٹ‘‘ ’’جناب عالی‘‘ کون بتائے گا؟ اگر حکومت نام کا کوئی وجود ہوتا تو پوچھنے کی نوبت کیوں آتی… ’’کون بتائے گا؟ کہ وزیر پٹرولیم کو کیوں اعتراف کرنا پڑا کہ ’’گیس چوری‘‘ میں صارفین اور محکمے ملے ہوئے ہیں ساتھ ہی فرما دیا کہ قیمتیں بڑھائیں گے اس کے باوجود گیس خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اور متوقع موسم سرما میں گیس کی بندش کا دورانیہ ’’3 ماہ‘‘ سے بڑھنے کا امکان ہے۔ گیس و بجلی کی لوڈشیڈنگ باعث کاٹن اور یا ان کی برآمد 52 فیصد کم ہو چکی ہے سیاسی بحرانوں الزام تراشیوں کے بے مزہ موسم نے سرمایہ کاری کو منجمد کر کے رکھ دیا ہے۔ بالآخر یہ نقصان عوام کو منتقل ہونا ہے۔
جبکہ پہلے ہی امیر طبقہ اور غریب کلاس کے مابین معاشی تفریق نے بہت بڑا خلا پیدا کر دیا ہے سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار ’’دھرنا سیاست‘‘ کو تو ٹھہرایا جا سکتا ہے مگر اس امر میں بھی کوئی شبہ نہیں رہنا چاہئیے کہ ’’حکومتی رویوں‘‘ نے بھی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے طویل لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ کے خلاف عوام پھر سڑکوں پر آگئے ہیں یہ جو حق عوام کے مالک کہلاتے ہیں عوامی نمائندوں کے لقب سے جانے جاتے ہیں سوچ کر بتائیے کہ ان میں سے کتنے عوامی مسائل کے حل کیلئے سڑکوں پر نکلے؟ ابھی تک تو صرف عوام ہی دہائی دے رہی ہے یہ اگر نکلتے ہیں تو پاکستانی محل سے یورپی محلات تک یا اگر اکھٹے ہوتے ہیں تو موروثی مفاداتی بینک کے تحفظ کے لئے اور وہ بھی ایک نکاتی ایجنڈے پوائنٹ پر … قوم کے کروڑوں روپے ڈوب گئے مشترکہ اجلاس پر مگر فائدہ پھر بھی نہیں ہو گا۔
کون بتائے گا؟ کہ ووٹ لینے والے عوام کے مسائل حل نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ اب تو ’’اعلیٰ عدلیہ‘‘ بھی جواب مانگتے ہوئے تھک گئی ہے۔ عدالتیں دہائی دے رہی ہیں ’’لاہور ہائیکورٹ‘‘ نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہو سکی ’’معزز عدلیہ‘‘ قانون بہت دور کی بات ہے۔ ادھر تو شرف آدمیت بھی مفقود ہے احترام عوام بھی لاپتہ ہے حب وطن بھی روپوش ہے حکومتی نظم بھی غائب ہے تو کون بتائے گا؟ کہ عوام داد رسی کے لئے رجوع کریں تو کس سے کریں عوام کی امانت (پارلیمنٹ) نام نہاد جمہوریت بچانے کے لئے متحدہ اکٹھی ہوسکتی ہے تو عوام کو مہنگائی کے طوفانی ریلوں سے بچانے میں کیوں نہیں عملی قدم اٹھا رہی کیا یہ ظلم نہیں کہ 6روپے بجلی کی قیمت بڑھا دی جاتی ہے اور اب کئی 29 پیسے فی یونٹ کی منظوری دیتے ہوئے پیشانی پر ندامت کا ایک قطرہ نہیں چھلکا؟
بھاری مینڈیٹ کی حامل قیادت کیوں نہیں عوامی مسائل کو حل کر رہی بے حسی اور لاتعلقی کے رویوں سے معاشی حالات مزید خراب ہو جائیں گے اور جب عوام کے مصائب میں مزید اضافہ ہو گا تو امن و امان جو کہ پہلے ہی نزاع حالت میں ہے کے سنگین مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں بدقسمتی سے ہمارا ملک خطے پر وسائل کی جنگ کا عالمی سازش کا مرکز بنا دیا گیا ہے ’’قیادت‘‘ میں عصری تقاضوں کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی لچک استعداد ہونی چاہئیے سیاسی تاریخ میں اتنا بدترین لمحہ کبھی نہ آتا اگر ماضی کے تنازعات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ’’ماضی سے انتقام‘‘ نے معیشت کے ساتھ سیاست کو بھی شرمندہ کر دیا۔
ضد بازی بلاوجہ انا کی برتری نے صورتحال یوں بنا دی ہے کہ ’’عوام سے لیکر حکومتی اہلکار‘‘ تک شش و پنج اور بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں توجہ اصل مسائل سے ہٹ کر صرف اپنی ذات کے تحفظ تک محدود ہو چکی ہے ہر بات خبر کو سنسنی خیز اور غیر ضروری بحث مباحثوں کی نذر کرنا ہماری ’’عادت بد‘‘ بن گئی ہے باقی سول اداروں کی طرح ’’فوج‘‘ میں بھی معمول کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں سیاسی حالات چاہے کوئی بھی رخ اختیار کر لیں ’’فوج‘‘ میں روزمرہ کے امور میں کوئی رکاوٹ نہیں آتی اور نہ ہی فیصلہ سازی کے امر میں کوئی اندیشہ جگہ پاتا ہے اب کی مرتبہ بھی روٹین کی ترقیاں، تقرریاں ہوئی ہیں جاری معمولات کے امور میں زیادہ قیاس آرائیاں یا تبصرے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں خصوصاً جب حالات ماحول میں تنائو ہو تو کہنا یہ مقصود ہے کہ ذاتی پسند، ناپسند یا کسی کو جمہوریت نواز ہونے کا تمغہ لگانے کی ضرورت نہیں ہر افسر، جوان اپنے باس، ادارے کا غیر متزلزل وفا دار رہتا ہے اسلئے بلاوجہ دخل اندازی سے احتراز برتنا چاہئیے فوکس اس ایجنڈے پر ہونا چاہئیے کہ اندرونی مسائل کے حل کی راہیں تراشی جائیں۔ دھرنوں کو کوسنے کی بجائے عوامی مطالبات پر کان دھرے جائیں۔
حکومت اپنے فرائض کو پہچانے۔ انتخابی وعدے پورے کرے۔ موجودہ مسائل کا حل یہ ہے کہ سیاسی، معاشی اور سماجی طاقت کو قابض قوتوں اشرافیہ کے ہاتھوں سے نکال کر صاف ستھری قیادت کو منتقل کر دیا جائے اگرچہ اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے مگر انتہائی سست رفتاری سے متوسط، تعلیم یافتہ، باشعور لوگوں کا اتنے بڑے پیمانے پر یک آواز ہونے سے فرسودہ نظام اور کرپٹ گروپوں کے اتحاد میں دراڑیں ڈال دی ہیں گو کہ تبدیلی کا سفر تیز رفتار نہیں لیکن اس مرحلہ پر اگر ’’سمجھ دار قوتوں‘‘ ذمہ دار اداروں نے وقت کی اس پکار کو دبانے کی کوشش کی تو زیادہ وسیع سطح کے ہنگاموں احتجاج اور فساد کا خطرہ ہے سیاست میں کوئی بھی بات، قدم حرف آخر نہیں ہوتا بس قیادت کونظرشناس ہونا چاہئیے سیاستدان پڑوسی ملک کی ترقی کا عمل ہی دیکھ لیں۔
الیکشن ہوئے سب نے تسلیم کئے اور اب وہ عوامی نمائندوں کا کردار ادا کر رہے ہیں بظاہر تو صورتحال بہتر ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے پے درپے انکشافات دم توڑتی مظاہروں کی سیاست میں جان ڈال دیتے ہیں اگر حکومت مدت پوری کرنا چاہتی ہے تو اس کو عوام کی طرف فوری طور پر ایک بڑا فلاحی پیکج منتقل کرنا چاہئیے ورنہ عوام کو اب تقریروں اور فوٹو سیشن سے بہلانا ممکن نہیں یہ ڈنگ ٹپائو اقدامات ہیں ہمارے مسائل کا حل دیرپا پائیدار پیکیج میں ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان کو کون بتائے گا کہ پیسے خرچ کرنے کی مستحق کونسی چیزیں مدیں ہیں۔