الیکشن کمشن نے دھاندلی کے الزامات مسترد کر دئیے، ریٹرننگ افسر عدلیہ کی بجائے بیورو کریسی سے لینے کا فیصلہ‘ بائیو میٹرک سسٹم کا استعمال قانون سازی سے مشروط ہو گا
اسلام آباد (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) الیکشن کمشن نے آئندہ عام انتخابات کا انعقاد عدلیہ کی بجائے انتظامیہ کی معاونت سے کرانے کا فیصلہ کر لیا‘ آر اوز اور ڈی آر اوز کے تقرر کے لئے 15 سو افسر انتظامیہ سے لئے جائیں گے۔ بائیو میٹرک سسٹم اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے استعمال کو قانون سازی سے مشروط کر دیا گیا‘ پی سی ایس آئی آر نے کمشن کو آگاہ کیا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں ادارے نے معیاری اور مطلوبہ سیاہی تیار کی تھی تاہم اس کی میعاد 4 سے 6 گھنٹے تھی‘ اگر ہر پولنگ بوتھ پر دو اضافی پیڈ فراہم کئے جاتے تو شکایات پیدا نہ ہوتیں۔ خیبر پی کے کی حکومت نے بائیو میٹرک سسٹم کے انتظامات اور قانون سازی کے لئے مزید وقت مانگتے ہوئے رواں سال صوبے میں انتخابات کرانے سے معذرت کر لی۔ الیکشن کمشن کا اجلاس قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس انور ظہیر جمالی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور غیر معیاری سیاہی کے استعمال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں انتخابات کی جائزہ رپورٹ کے حوالے سے مشاورت کی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گزشتہ عام انتخابات میں عدلیہ کی جانب سے فراہم کئے آر اوز اور ڈی آر اوز پر لگنے والے الزامات کی وجہ سے عدلیہ کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کیلئے نہیں کہا جائے گا بلکہ آئندہ عام انتخابات میں الیکشن کی نگرانی کیلئے آر اوز اور ڈی آر اوز بیورو کریسی سے لئے جائیں گے۔ کمشن کو مختلف اداروں کی جانب سے بتایا گیا کہ اس کیلئے مناسب انتظامات اور قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ اجلاس نے طے کیا کہ اس معاملے کو قانون سازی سے مشروط کیا جائے گا۔ حکومت کو قانون سازی کے لئے مسودہ بھجوایا جائے گا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ جاوید ہاشمی کے حلقہ این اے 149 ملتان کے ضمنی الیکشن کیلئے جوڈیشل افسروں کی خدمات دینے سے معذرت کر چکی ہے۔ دریں اثناء اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ میں الیکشن کمشن نے عام انتخابات سے متعلق دھاندلی کے الزامات مسترد کر دیئے۔ ایڈیشنل ڈی جی الیکشن کمشن نے میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ انتخابات میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی بھی پرنٹنگ کارپوریشن کے اندر ہی کی گئی اور بیلٹ پیپرز پر نمبر لگانے کے لیے لاہور سے 34 پرائیوٹ افراد کی خدمات لی گئیں جنہیں اردو بازار اور دیگر مقامات سے لایا گیا تھا۔ بیلٹ کے پیپرز باہر سے چھپوانے کا الزام مسترد کر دیا گیا۔ ڈی جی الیکشن کمشن کا کہنا تھا کہ ووٹ ڈالنے کے لیے صرف شناختی کارڈ کا ہونا ضروری ہے لیکن انتخابات میں مقناطیسی سیاہی اور کمپیوٹرائزڈ ووٹر لسٹوں کا استعمال انتظامی ضرورت کے تحت کیا گیا اور نادرا کی تجویز کردہ مقناطیسی سیاہی تیار کی گئی۔ حکام نے بتایا کہ ووٹوں کی تصدیق کے لیے فنگرپرنٹ ضروری نہیں، انگوٹھا لگانا فن ہے جو ہر ووٹر کو نہیں آتا جس کے باعث بہت سے انگوٹھے ایسے ہوتے ہیں جن کی تصدیق نہیں ہوسکتی۔ انتخابی شکایات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ 405 شکایات میں سے بیشتر کو دور کیا جاچکا ہے جن میں سے اب صرف 76 پر کارروائی ہونا باقی ہے۔ دوسری جانب الیکشن کمشن نے آئندہ عام انتخابات میں ریٹرننگ افسران بیورو کریسی سے لینے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت الیکشن میں آر اوز کی خدمات انجام دینے کے لئے 1 ہزار سے 1500 کے لگ بھگ افسران کو بیوروکریسی سے لیا جائے گا۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل الیکشن کمشن مسعود ملک نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریٹرننگ افسران نے نتائج ہاتھ سے نہیں لکھے بلکہ تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ دھاندلی کے الزامات لگانے والے ٹربیونلز میں ٹھوس ثبوت لائیں۔ فارم 14 اور 15 ویب سائٹ پر ڈالنا ضروری نہیں ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ آئندہ انتخابات سے تمام انتخابی مواد بیلٹ پیپرز، بیلٹ باکس، انتخابی نتائج، الیکشن کے بعد چاروں صوبائی الیکشن کمشنر کے دفاتر میں رکھے جائیں گے اور اس مقصد کیلئے خصوصی کمرے اور ہال تعمیر کئے جائیں گے خصوصی ڈبل لاک اپ بنائے جائیں گے تاکہ ریکارڈ چوری نہ ہو۔ آئندہ سے ریکارڈ ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں نہیں رکھا جائے گا۔