• news

عمران خان کے الزامات اورمسلم لیگ (ن) کا حقائق نامہ

 پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ترجمان محمد صدیق الفاروق نے جنرل (ر) پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کے ادوار  میں ’’حقائق نامے‘‘ جاری کرنے میں ملک گیر شہرت حاصل کی تھی لیکن جب سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی ہے تو ان کو’’راندہ درگاہ‘‘ بنا دیا گیا  اور ان کی تمام تحقیقات کو مسلم لیگ (ن) سیکریٹریٹ  کے  ’’طاق‘‘ میں رکھ دیا گیا ہے اگرچہ وہ پی ٹی وی شوز میں بھر پور انداز میں  مسلم لیگ (ن) کی ترجمانی  کر رہے ہیں لیکن ان کو پارٹی کی طرف سے سیاسی مخالفین سے’’ دو دو ہاتھ ‘‘کرنے کی باقاعدہ ذمہ داری نہیں سونپی   گئی وہ اپنی بساط کے مطابق  حکومت کا دفاع  کر رہے ہیں  ۔ جب 14اگست 2014ء کو لاہور سے شروع ہونے والے لانگ مارچ نے 19اگست2014ء کو شاہراہ دستور پر دھرنے کی شکل اختیار کر لی تو حکومت شدید   دباؤ میں آگئی  30اور 31اگست2014کی درمیانی شب حکومت پر بھاری تھی ایسا دکھائی دیتا تھا کہ‘‘ حکومت اب گئی کہ اب گئی ‘‘  لیکن اگلے ہی روزمخدوم  جاوید ہاشمی  نے جراء ت مندی سے عمران خان کے عزائم کو بے نقاب کر دیا اسی طرح  جوں ہی دھرنے کے شرکاء کی تعداد میں کمی آئی  شاہراہ دستور پر ’’ سٹیج شو‘‘  کی ناکامی سے  حکومت بھی دباؤ سے باہر نکل آئی  تو  تحریک انصاف اور عوامی تحریک پر ’’جوابی حملہ‘‘ کرنے کا فیصلہ کر لیا پچھلے 40-45 روز سے حکومت بڑے صبر وتحمل سے روزانہ 3, 3 بار عمران خان اور طاہر القادری کی  حکومت پر الزامات کی بارش  برداشت کر رہی تھی ۔  حکومت  نے بھی عمران خان کے انتخابی دھاندلیوں کے بارے میں ’’حقائق نامہ‘‘ جاری کرکے تحریک انصاف پر’’ گول‘‘کر دیا ہے۔ یہ حقائق نامہ وزیر مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کا تیار کردہ ہے۔ جس میں انہوں نے نہ صرف عمران خان کے 13 الزامات کا کماحقہ جواب دیا ہے بلکہ تحریک انصاف کے انتخابات میں شکست کے بعد قائم کئے گئے پارٹی کے  ریویو کمیشن کی رپورٹ بھی شامل کردی ہے۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں تحریک انصاف کی شکست کی وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ حقائق نامہ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزامات کا نکتہ وار جواب دیا گیا  ہے۔ انوشہ رحمان نے حقائق نامہ جاری کرکے الزامات کی دھول تلے د بی حکومت کو سر اٹھا کر بات کرنے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس حقائق نامہ میں عام انتخابات کے نئے پہلوؤں کو بھی منظر عام پر لایا گیا ہے جن سے شاید   ہی عام پاکستانی آگاہ ہو  ۔انوشہ رحمنٰ کے نکتہ نظر سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے لیکن انہوں نے جس طرح محنت سے انتخابات کے بارے میں اہم دستاویز تیار کی ہے اس کی داد نہ دینا سراسر زیادتی ہوگی۔ بہرحال یہ صفحات تحریک انصاف کے جواب کے لئے حاضر ہیں وہ اس حقائق نامہ سے اپنا اختلاف کر سکتی ابھی تک تحریک انصاف  نے حقائق نامہ کا جواب دینے کی زحمت گوارہ نہیں کی  مسلم لیگ (ن) کی قیادت پچھلے 45-40 روز سے میدان سیاست میں دفاعی پوزیشن پر کھیل رہی تھی لیکن اب اس کی قیادت نے الزامات کا ’’ترکی بہ ترکی‘‘ جواب دینے کی حکمت عملی اختیار کرکے دھرنا دینے والی جماعتوںکو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف الزامات عائدکرنے سے جہاں سیاسی ٹمپریچر میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے  وہاں حقائق کو بھی  پر منظر عام لایا گیا ہے اس  سے عوام  کو بھی حقائق  سے  آگاہی حاصل  ہو گی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے الیکشن سیل نے  42 صفحات پر مشتمل حقائق نامہ جاری کیا  ہے جس میں خلاصہ کے علاوہ عام انتخابات میں تحریک انصاف کی شکست پر روشنی ڈالی گئی ہے  اس میں قومی و بین الاقوامی اداروں کے عام انتخابات کے بارے میں تجزیے شامل کئے گئے ہیں  جبکہ ایک باب میں عمران خان کی طرف سے لگائے گئے الزامات کا جواب دیا گیا ہے۔ عام انتخابات میں تحریک انصاف کے دھاندلی کے الزامات کے بارے میں حقائق نامہ میں  انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب میں قومی اسمبلی کے 55 انتخابی حلقوں میں تحریک انصاف کے امیدواروں کا زرضمانت ضبط ہو گیا‘ جبکہ 10 حلقوں میں  تحرے انصاف کوکوئی امیدوار میسر نہیں آیا‘ اسی طرح  پنجاب کے 148 حلقوں میں سے 65 حلقوں میں جو  پنجاب میں قومی اسمبلی کا 44 فیصد ہے‘ تحریک انصاف کے کسی امیدوار نے کامیاب  امیدوار کی کامیابی کو چیلنج نہیں کیا۔2013   کے انتخابات کے بارے میں ایسی کوئی شہادت نہیں ملی جس سے انتخابات میں منظم دھاندلی یا کسی سیاسی جماعت کے خلاف سازش کا ثبوت ملتا ہو‘ تمام متاثرہ امیدواروں کو   دادرسی کے لئے انتخابی ٹربیونل سے رجوع کرنے کا موقع فراہم کیا گیا  مسلم لیگ (ن) کے حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ  پی ٹی آئی کے اندرونی ریویو کمشن کی رپورٹ میں عام انتخابات میں شکست کا ذمہ دار پارٹی اختلافات  کو قرار دیا گیا اور کسی دھاندلی کے منظم منصوبہ کی نشاندہی نہیں کی گئی۔  پی ٹی آئی کے ناکام ارکان نے 58 انتخابی عذر داریاں دائر کیں  جن میں سے قومی اسمبلی کی 30 انتخابی عذر داریوں میں سے 19 کا تعلق پنجاب سے ہے جبکہ 28 انتخابی عذر داریوں کا تعلق صوبائی اسمبلیوں  سے ہے۔ اگر  پی ٹی آئی پنجاب میں یہ تمام 19 نشستیں بھی حاصل کر لے تو اس کی تعداد 34 سے 53  ہو جاتی ہے لیکن اسے حکومت  سازی کے لئے مزید119 نشستیں درکار ہیں۔ حقائق نامہ میں کہا گیا ہے کہ 2013ء کے انتخابات میں بہت پہلے مسلم لیگ (ن) کی غیرمعمولی کامیابی کی پیشگوئی کر دی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کو دوسری اور  پی ٹی آئی کو تیسری اپوزیشن  ملنے کا کہا گیا۔ حقائق نامہ میں  عمران خان  اس  الزام کو بھی بے بنیاد قرار دیا گیا ہے کہ  35 حلقوں میں’’پنکچر‘‘ لگائے گئے ہیں  کیونکہ  مسترد کئے گئے ووٹوں سے زیادہ ووٹ لے کر  مسلم لیگ (ن) کے امیدوار  کامیاب ہوئے ہے۔ پنجاب میں صرف دو حلقے ایسے ہیں جن میں مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی اور پی ٹی آئی رنر اپ رہی۔ انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق ‘ اردو  بازار میں بیلٹ پیپروں کی اشاعت کے  بارے میں  متعلقہ ادارے تردید کر چکے ہیں۔ عمران خان نے  جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کو چیف الیکشن کمشنر بنانے کے  لئے  نامزدگی اور چیف جسٹس (ر) افتخار چودھری پر مکمل اعتماد کا  بارہا اظہار کرتے رہے ہیں  نگران  حکومتوں کے قیام سے لے کر  الیکشن کمشن کی تشکیل تک تمام تقرریاں  آئین کے مطابق کی گئیں۔   حقائق نامہ میں بتایا گیا ہے کہ فروری 2013 کے گیلپ سروے کے مطابق مسلم لیگ ن کو 41 فیصد‘ پی پی پی کو 17 فیصد اور پی ٹی آئی کو 14 فیصد ووٹ ملنے کی پیشگوئی کی تھی۔ پی ٹی آئی کے ریویو کمشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ عام انتخابات سے 14  ماہ قبل منعقد ہونے والے ’’انٹرا پارٹی‘‘ الیکشن کی درست منصوبہ بندی نہیں کی گئی اس  سے  پارٹی  میں  اختلافات نے جنم لیا  انٹرا پارٹی  انتخابات کو پارٹی امیدواروں اور  پرانے کارکنوں نے عمومی طور پر مسترد کر دیا۔ پی ٹی آئی ریویو کمشن نے انتخابات میں شکست کو ٹکٹوں کی غلط تقسیم قرار دیا ہے۔ میرٹ  کو  پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ اس سلسلے میں کرپشن کے الزامات عائد کئے گئے  لیکن آپریشن کے الزامات میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔  پی ٹی آئی کی انتخابی مہم زمینی حقائق کے مطابق نہیں تھی۔ رپورٹ میں   پارٹی کے عہدیداروں اور کارکنوں کی عمران خان سے شکایات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے رپورٹ میں کہا  گیا ہے عمران خان  کارکنوںکو وقت دیتے ہیں اور نہ ہی اہمیت۔ اسی طرح  کمشن نے نامزد  سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کو کو غیر فعال قرار دیا۔ پی ٹی آئی نے انتخابی مہم میں دیہی علاقوں کو نظر انداز کیا  یہ بات قابل ذکر ہے  تحریک انصاف کی قیادت نے ریویو کمشن کی رپورٹ کو ’’سردخانے‘‘ میں ڈال دیا ہے اس رپورٹ میں پارٹی کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی کے انکشافات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے  وزیر اعظم محمد نواز شریف نے عمران خان کے انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنے کے لئے چیف جسٹس آف پاکستان سے  سپریم کورٹ کے 3ججوں پر مشتمل کمشن بنانے کی استدعا کی ہے عمران خان کو دھرنا سے ’’ باعزت واپسی‘‘ کا راستہ تلاش کرنا چاہئے اور انتخابی دھاندلیوں کو کمشن میں ثابت کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن