دسمبر کے بعد بھی 9800 امریکی فوجی افغانستان میں رہ سکیں گے، سکیورٹی معاہدہ پر دستخط
کابل (بی بی سی+ اے ایف پی+ رائٹرز) کابل میں نئے افغان صدر اشرف غنی نے اقتدار سنبھالنے کے دوسرے ہی روز امریکہ کو افغانستان میں مزید قیام کی اجازت دے دی۔ دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کر دئیے گئے۔ پاکستان نے بھی اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے خطے میں سکیورٹی کی صورت حال بہتر کرنے میں مدد ملے گی جبکہ افغان طالبان نے اس معاہدے کی مذمت کی ہے۔ معاہدے کے تحت 2014ءکے بعد 9800 امریکی فوجی افغانستان میں رہیں گے اس کے علاوہ نیٹو ملکوں کے 3000 فوجی بھی امریکی فوج کی معاونت کرتے رہیں گے۔ سکیورٹی کے اس معاہدے پر دستخط افغان حکومت کے مشیر برائے قومی سکیورٹی حنیف اتمر نے کئے جبکہ امریکی سفیر جیمز کننگھم نے امریکہ کی طرف سے دستخط کئے۔ واضح رہے کہ سابق صدر حامد کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے سبب امریکہ سے تعلقات میں کشیدگی آ گئی تھی اور سکیورٹی کے خدشات میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اشرف غنی کے معاون داو¿د سلطان زئی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’معاہدے پر دستخط سے یہ پیغام جائے گا کہ اشرف غنی نے اپنا وعدہ نبھا دیا۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ حلف برداری کے دوسرے دن اس معاہدہ پر دستخط ہوں گے۔ اس دستخط کے بعد اس سال کے آخر تک افغانستان سے زیادہ تر نیٹو افواج واپس چلی جائیں گی جبکہ 9800 امریکی فوجی وہیں رہیں گے۔ آئندہ سال امریکی قیادت والے مشن کے تحت افغانستان میں صرف ساڑھے 12 ہزار غیرملکی فوجی رہ جائیں گے جس میں امریکہ کے علاوہ جرمنی اور اٹلی کے فوجی بھی شامل ہوں گے۔ بی ایس اے کی رو سے بعض مخصوص فوجی دستوں کو ملک میں رہنے کی اجازت ہوگی تاکہ وہ ’انسدادِ دہشت گردی‘ کی کارروائیاں کر سکیں اور افغان فوج کو ضروی تعاون اور تربیت فراہم کر سکیں۔ افغانستان میں آئندہ سال امریکی فوجیوں کی نصف تعداد رہ جائے گی اور پھر اس کے بعد 2016ءکے اوائل میں اس میں بھی مزید کمی کی جائے گی۔ امریکہ کے ’افغان مشن‘ کے لئے نیٹو نے جتنی تعداد میں افواج بھیجی تھیں وہ اس میں مسلسل کمی اور وہاں کا کنٹرول مقامی سکیورٹی فورسز کے حوالے کرتی جا رہی ہے۔ رواں سال کے اوائل میں افغانستان میں 49 ممالک کے تقریباً 50 ہزار فوجی تھے جن میں سب سے زیادہ امریکہ کے 34 ہزار فوجی تھے۔ افغان طالبان نے امریکہ اور افغانستان کے درمیان ہونے والے دو طرفہ سکیورٹی معاہدے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’افغانستان میں موجود امریکی غلاموں کا اصل چہرہ افغان عوام پر آشکار ہو گیا ہے۔‘ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک بیان میں کہا کہ ’انہوں نے افغان عوام کو پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ یہ لوگ امریکی غلام ہیں، انہیں افغانوں کے بھیس میں ہم پر مسلط کیا گیا اور یہ چند ڈالروں کی خاطر افغانستان اور خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔‘ طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ معاہدے میں افغان عوام کی مرضی شامل نہیں۔ ’ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے غلاموں کے خلاف شروع کیا گیا جہاد تب تک جاری رہے گا، جب تک افغانستان کو امریکہ سے مکمل طور پر آزاد نہیں کرا لیا جاتا اور ایک مستحکم اسلامی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔‘ ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے پر دستخط کرنے والوں کو وہی سزا دی جائے گی جو کہ اس سے پہلے غلاموں کو دی گئی تھی۔‘ ادھر وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز کا مزید کہنا تھا کہ میرے خیال میں اس سے بڑھ کر زیادہ اہم یہ ہے کہ اس معاہدے کے بعد افغانستان کو جو دفاعی اور معاشی وسائل درکار ہیں وہ میسر آ جائیں گے۔ نئی افغان حکومت اور دوسری جانب امریکہ کے ساتھ اس اہم معاہدے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود عدم اعتماد اور باہمی توقعات پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال کے جواب میں سرتاج عزیز نے افغان صدر کی پہلی تقریر کو نہایت مثبت قرار دیا۔ ’افغان صدر نے اپنی پہلی تقریر میں پالیسی بیان دیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان یا دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور یہی پاکستان کا موقف ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک بہت اچھی ابتدا ہے کہ سرحد کو سنبھالنے کا طریقہ کار بھی طے کیا جا سکے گا تاکہ یہاں سے کوئی وہاں نہ جائے اور نہ وہاں سے کوئی آئے۔ سرتاج عزیز نے یہ بھی امید ظاہر کی کہ سرحدی واقعات کے حوالے سے جو باہمی اعتماد کا فقدان پیدا ہوتا تھا وہ کافی حد تک کم ہو جائے گا۔ ’پاکستان مخالف عناصر جب وہاں جا کر ہم پر حملہ کرتے ہیں تو پاکستان کی جانب سے جواب دینے پر وہ کہتے ہیں کہ یہ افغانستان پر حملہ ہے۔ اس کے جواب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کی جانب سے جوابی حملہ افغانستان پر نہیں ہوتا ہم خدانخواستہ افغانستان پر کیوں حملہ کریں گے لیکن ادھر سے ہم پر فائرنگ ہو گی تو ہمیں بھی جواب تو دینا پڑے گا۔‘ آن لائن کے مطابق امریکی فوجیوں کو اپنے قیام کے دوران انہیں قانونی کارروائی سے مکمل استثنیٰ حاصل ہو گا۔ امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ معاہدے سے مستقبل میں افغانستان کے ساتھ صحت، تعلیم اور خواتین کے حوالے سے تعاون کے راستے کھلیں گے اور نیٹو کا مشن مکمل ہونے کے بعد ہمارے باقی رہ جانے والے فوجی ملک کی ترقی میں مدد کریں گے۔ نومنتخب افغان صدر نے معاہدے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ معاہدہ ہمارے لوگوں، خطے کے استحکام اور دنیا کے لئے ہے اور اس کے تحت امریکہ کی طرف سے افغان فوج کے لئے امداد کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے مفادات کو اب بھی خطرات موجود ہیں۔ امریکی سفیر کے مطابق نئے مشن کا نام ”مدد اور بحالی“ ہے اور امریکی فوجی افغان فوجیوں کی استطاعت بڑھانے میں ان سے معاونت کریں گے۔ رائٹرز کے مطابق اشرف غنی نے کہا کہ افغانستان کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ افغانستان میں رہنے والی فوج کے استعمال کا اختیار افغان حکومت کو ہوگا، ملک کی فضائی حدود افغان حکام کے کنٹرول میں ہو گی، غیرملکی افواج کو مساجد اور دیگر مذہبی مقامات میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ادھر امریکی صدر بارک اوباما نے دونوں ملکوں میں ہونے والے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ افغانستان کی ترقی اور استحکام کا مشن جاری رہے گا۔امریکی صدر نے کہا ہے کہ سکیورٹی معاہدہ افغان حکومت کی جانب سے اس تعلق کو مضبوط بنانا ہے جو 13 سال سے قائم ہے، سکیورٹی معاہدے سے 2014ءکے بعد امریکی فوج کو 2 ضروری قانونی ضابطے پورے کرنے میں مدد ملے گی۔ سکیورٹی معاہدے کے تحت القاعدہ کی باقیات کا خاتمہ اور افغان نیشنل سکیورٹی کی تربیت، مشورے اور معاونت میں مدد ملے گی۔ امریکی وزیر دفاع چیک ہیگل نے کہا ہے کہ افغانستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ آگے کی جانب اہم قدم ہے۔