اپنوں کے درمیان
سفر امریکہ کا اور سفر نامے کا نام ہے ’’اپنوں کے درمیان‘‘ سفر نامے میں امریکیوں کا ذکر کم ہے بلکہ کم سے کم ہے۔ امریکہ میں بہت پاکستانی رہتے ہیں۔ برادرم میاں محمد آصف کی تحریر بھی بتاتی ہے اور مجھے یوں بھی لگتا ہے کہ بندہ بیرون ملک جانے کے بعد زیادہ پاکستانی اچھا پاکستانی ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پاکستان سے جا کے پاکستان بن جاتے ہیں۔ میاں آصف امریکہ میں پاکستانیوں کے درمیان رہے تو پھر وہ اپنوں کے درمیان رہے ہیں۔ میاں صاحب کا مزاج ایسا ہے کہ وہ اپنوں کے درمیان رہنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ پاکستان امریکہ بن جائے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان پاکستان بن جائے۔ ایسا ہی پاکستان بن جائے جو امریکہ میں ہے۔ ناروے میں ہے، کسی مغربی ملک ہے، نجانے مجھے کیوں یہ محسوس ہوتا ہے کہ دو ایک مسلمان ملکوں کو چھوڑ کر تمام مسلمان ملک ہمارے پاکستان جیسے ہیں وہاں کا سفر آصف صاحب کریں تو پھر بھی ان کے سفر نامے کا نام ’’اپنوں کے درمیان‘‘ ہو گا۔ ورنہ کیفیت یہی ہو گی۔
ہر کسی نے ہر کہیں چھوٹا سا پاکستان بنا رکھا ہے۔ ناروے اوسلو میں لٹل پاکستان، انگلستان بریڈ فورڈ میں منی پاکستان جبکہ لندن میں زیادہ پاکستانی رہتے ہیں۔ یہاں پاکستانی سیاستدانوں کے بڑے بڑے گھر بھی ہیں۔ مگر جو چھوٹا سا پاکستان اپنے سفر نامے میں میاں آصف نے بسایا ہے وہاں رہنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کا آسان اور فوری طریقہ یہ ہے کہ یہ سفر نامہ پڑھا جائے اور میاں صاحب کے ساتھ رہنے کا لطف اٹھایا جائے۔
میں نے امریکہ کا ایسا سفرنامہ اب تک نہیں پڑھا۔
کسی تحریر کا اچھا یا برا ہونا بھی خوبی ہے مگر میرے خیال میں سب سے بڑی خوبی مختلف ہونا ہے۔ آصف کے سفرنامے کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کا سفر نہیں کیا۔ انہوں نے ’’اپنے امریکہ‘‘ کا سفر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ کا ویزہ ہونے کے باوجود میرے دل میں امریکہ جانے کی خواہش کبھی نہیں جاگی اور ویزہ ختم ہو گیا۔ پھر میں نے اپنی بیٹی کی خوشی اور اپنی سرخوشی کے لئے وقتی طور پر پاکستانی وقت کے دھارے سے الگ ہونے اور امریکی وقت کے دھارے کے ساتھ جڑنے کا فیصلہ کیا تو یہ سفرنامہ بھی وجود میں آ گیا۔ میرے خیال میں وقت کے دونوں دھارے ایک ہو گئے تھے اور ایک دھار میں ڈھل گئے۔ اب تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کی ضرب المثل کو ایک اور ہی مثال میں دیکھو اور سفرنامہ پڑھو۔ آپ بھی اس دھارے میں آ جائیں گے۔ سرخوشی بہرحال خوشی سے آگے کی چیز ہے۔ جب عزیزوں پیاروں کی خوشی میں شامل ہونے کی آرزو دل میں جاگے تو پھر یہ احساس ہوتا ہے جیسے بلند سے سربلندی اور مستی سے سرمستی بڑی ہوتی ہے۔ ایسے میں بدمستی بھی منفی نہیں رہتی۔
برادرم میاں آصف کی بیٹی امیمہ ایمن کی گریجوایشن کی تقریب میں شرکت کی دعوت انہیں امریکہ لے گئی۔ ان کا یہ جملہ کس قدر خوبصورت اور بامعنی ہے۔ جو سفر کبھی خواہش بھی نہ تھا۔ شوق بن گیا۔ سفر نامے میں اس نے ذوق و شوق کا روپ دھار لیا ہے۔ بیٹی کے لئے اس کالج کی ایک تقریب میں شرکت ’’تقریب کچھ تو بہرملاقات چاہئے‘‘ بن گئی۔ آصف سے پوچھا گیا کہ آپ چار دن مائونٹ ہولی ورک کالج میں گزار کر جا رہے ہو اب اس کالج سے آپ کا رومان کس حال میں ہے؟ اس سے برجستہ جواب کیا ہو گا اور یہی اس کالج کے لئے خراج تحسین بھی ہے۔ میں چاہوں گا کہ میری دوسری بیٹی ادابہ حرم اس کالج میں امیمہ ایمن کی جگہ لے۔‘‘ یہ سلسلہ چل نکلا تو کتنے اور سفرنامے ہمیں پڑھنے کو ملیں گے۔ ایک بات اور میرے دل میں اتر گئی ہے کہ بیٹیاں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں۔
بہت سے خوبصورت باب اس سفرنامے میں ہے۔ ’’ایک روشن دن‘‘ اس روشنی میں آصف امریکہ آگے اور یہ روشنیاں ان کے سفرنامے میں بکھر گئیں۔ آج پتہ چلا کہ ایک دن ہزار دنوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ قرآن میں کہا گیا ہے کہ ایک رات (لیلتہ القدر) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں راتیں اور دن دونوں شامل ہیں۔ انہی میں سے ایک دن ’’ایک روشن دن‘‘ ہے۔ قدم قدم اللہ کے ساتھ رابطے نے میاں آصف کو زیادہ مربوط کر دیا ہے۔ ایمن بیٹی کی سند یابی کے لمحے کے لئے تشکر کی جو کیفیت آصف صاحب نے بیان کی ہے اس نے میرے اندر بھی ’’تکبر‘‘ پیدا کیا ہے۔ شکرانے کے احساس نے تکبر کو نیگیٹو نہیں رہنے دیا۔ بہ تکبر ہے جو تدبر اور تشکر کا چھوٹا بھائی ہے۔ نظر نہ آنے والی حقیقتوں کو حکایتوں میں بدلنے کی آزور آصف کے پاس رہتی ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ یہ آرزو ان کے پاس ہے۔ آرزو کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ اس لئے تو آدمی اضطراب میں رہتا ہے۔ خواب دیکھنا بہرحال دیکھنے سے مختلف کوئی ادا ہے جو ادائے دلبرانہ بنتی ہے۔ یہ دلبری سفرنامے کے چھوٹے چھوٹے ابواب میں بکھر گئی ہے۔ سارے کا سارا اعجاز اختصار میں ہے۔ مختصر نویسی معجز نگاری ہے۔ روحانیت اور رومانیت کے امتزاج نے آصف کی تحریر کی جو مزاج بخشا ہے۔ وہ بہت دوستانہ اور قلندرانہ ہے۔ یہ اس کی سپردگی ہے جو خود سپردگی کے مقام تک پہنچ گئی جو اللہ کے قدرتوں سے اسے جوڑتی ہے۔ امریکہ پہنچنے کے لئے بیٹی کی محبتوں نے ناممکنات کو ممکن کر دیا۔ آصف کا ایک جملہ دیکھو۔ ’’اللہ کے بندو اللہ پر بھروسہ کر کے تو دیکھو۔‘‘
بڑی مدت کے بعد ایک آسودہ اور سادہ نثر کی تاثیر نے مجھے گرویدہ کیا ہے۔ اتنی روانی اور فراوانی ہے لفظوں کی ہمرنگی اور ہم آہنگی کو برتا گیا ہے کہ ایک سماں بندھ گیا ہے۔ یہ شاعرانہ نثر کا کمال ہے۔ اس کمال میں جو جمال ہے اس سے پوری طرح آشنا ہیں۔ یہ نثر میں قافیہ پیمائی کی کوہ پیمائی ہے بلکہ کوہ نور پیمائی ہے۔ یہ میرے دل کے قریب ایک اسلوب ہے جو بہت محبوب ہے۔ آصف لکھتے ہیں ناشنے کی میز جس چاہت اور وسعت سے سجائی گئی تھی اس کا حق کون ادا کر سکتا ہے مگر اس تکلف کے پیچھے جو کلفت اور الفت تھی اس کا شکریہ ہم نے ضرور ادا کیا اور بار بار کیا۔
’’اپنوں کے درمیان‘‘ ایسا سفرنامہ ہے جس کی سطر سطح میں اپنائیت بھری ہوئی ہے۔ نجانے کون میرے دل میں آیا ہے کہ کوئی ایسی تحریر محمد آصف لکھیں جس کا نام ہو ’’غیروں کے درمیان‘‘ یہ بھی ایک مزیدار تجربہ ہو گا۔ وہ غیرت اور غیریت کے درمیان فرق کو جانتے ہیں اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اہل خبر ہونا باخبر ہونے سے افضل ہے۔