پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سیریز کا باقاعدہ آغاز 5اکتوبر سے ہورہا ہے
حافظ محمد عمران
پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سیریز کا باقاعدہ آغاز 5اکتوبر سے ہورہا ہے۔ سیریز کا پہلا ٹی ٹونٹی اتوار کے روز دبئی انٹرنیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں کھیلا جائے گا۔ سیریز کا یہ واحد ٹی ٹونٹی اس لحاظ سے اہم ہے کہ ایک تو پاکستانی ٹیم کافی عرصہ بعد ٹی ٹونٹی میچ کھیل رہی ہے اور دوسرا محمد حفیظ کے بعد کپتانی کی ذمہ داری سنبھالنے والے شاہد آفریدی اس میچ میں ٹیم کی قیادت کریں گے۔ یہ شاہد آفریدی کے بطور کپتان دوسری باری کا پہلا امتحان ہے۔ اُنھیں بطور کپتان ٹیم کو عمدگی سے لڑانے کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔شاہد آفریدی خود کھل کر کپتان بننے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں، محمد حفیظ کے سبکدوش ہوجانے کے بعد شاید بورڈ فوری طور پر انھیں کپتان بنانے کا اعلان بھی کردیتا مگر اُنھوں نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ورلڈ کپ میں شکست پر میڈیا میں بیان بازی شروع کردی۔ چنانچہ فوری طور پر کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کو کپتان نہ بنانے کا فیصلہ کیا اور عمراکمل اور احمد شہزاد کو کپتان بنانے پر بھی غور کیا جاتا رہا۔ فواد عالم اور صہیب مقصود کا نام بھی زیرغور آیا تاہم قرعہ شاہد آفریدی کے نام نکلا۔ یوں آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے پہلے شاہد آفریدی کو ایک بار پھر کپتان بنادیا گیا۔ اب شاہد آفریدی کو اس پہلے ہی امتحان میں سرخرو ہونے کے لیے اپنے ساتھ ٹیم کو بھی بہترین کارکردگی پر تیار کرنا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ آفریدی اس پہلے امتحان میں کس قدر کامیاب ہوپاتے ہیں۔ اُنھیں سابق ٹی ٹونٹی کپتان محمد حفیظ کے علاوہ قیادت کے دو مضبوط امیدواروں عمراکمل اور احمد شہزاد کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہوگا، جو ایک کڑا امتحان ثابت ہوسکتا ہے۔ سعیداجمل کے نہ ہونے اور محمد حفیظ پر ڈومیسٹک ٹی ٹونٹی سیریز میں امپائرز کی جانب سے اعتراض سامنے آنے کی وجہ سے قومی ٹیم کو آسٹریلیا کے خلاف واحد ٹی ٹونٹی میں سپن بولنگ کے شعبے میں دقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
لاہور لائنز کی ٹیم اگرچہ چیمپئنز لیگ میں بہت اچھی کارکردگی کا تو مظاہرہ نہیں کرسکی مگر بہرحال ان کی کارکردگی بری نہیں رہی۔ کچھ کھلاڑی خاص طور پر اچھی فارم میں ہیں۔ سعد نسیم جیسے نوجوان کھلاڑیوں سے کافی توقعات وابستہ ہیں۔ عمراکمل اور محمد حفیظ بھی اچھی فارم میں ہیں۔ ان کھلاڑیوں کی شمولیت سے قومی ٹیم سے اچھے مقابلے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ اس وقت فٹنس اور کارکردگی میں تسلسل پرخصوصی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اسی ضمن میں کوچ وقار یونس کا کہنا ہے کہ اُن کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دی جائے گی جن کی موجودہ فارم اچھی ہے۔ عمرامین اور سہیل تنویر جیسے کھلاڑیوں کو ڈومیسٹک کی اچھی پرفارمنس کی بنیاد پر ہی ٹیم میں دوبارہ جگہ دی گئی ہے۔ جبکہ محمد طلحہ جیسے بولر کو ٹیم میں جگہ نہ دینے کی بھی یہی وجہ ہے کہ اُن کی موجودہ فارم اچھی نہیں۔ دوسری طرف تجربہ کار بلے باز یونس خان کی ٹیم میں عدم شمولیت پر بھی خاصی بحث ہوتی رہی ہے۔ مگر اس بارے میں ٹیم مینجمنٹ کا موقف یہ رہا ہے کہ یونس خان فارم بحال کرکے ہی ٹیم میں شامل ہوسکتے ہیں۔اُن کی بُری فارم کا خمیازہ ٹیم کیوں بھگتے۔
ون ڈے اور ٹیسٹ میچوں میں قومی ٹیم کو آسٹریلیا جیسے مضبوط حریف کو شکست دینے کے لیے سو فیصد کارکردگی دکھانا ہوگی۔ سری لنکا کے خلاف شرمناک شکست کے اثرات سے باہر نکل کر مثبت کرکٹ کھیلنا ہوگی تب ہی کامیابی مقدر بن سکے گی۔
پاک آسٹریلیا سیریز ون ڈے سیریز کے میچ 7،10،اور 12اکتوبر کو کھیلے جائیں گے۔ جبکہ پہلا ٹیسٹ 22سے 26اکتوبر، اور دوسرا 30اکتوبر سے 3نومبر تک کھیلا جائے گا۔
ون ڈے میچوں میں مبصاح الحق کو ناصرف بیٹ کے ساتھ عمدہ کارکردگی دکھانے کا چیلنج درپیش ہے ساتھ ہی انہیں مجموعی طورپر بھی اچھے نتائج دینا ہونگے۔ اب اگر کارکردگی خراب رہی تو وہ کپتانی سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔