• news

پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا نیا نظام شروع ہونے سے قبل ہی تنازعات کا شکار

لاہور (حافظ محمد عمران/ نمائندہ سپورٹس) پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا نیا نظام شروع ہونے سے قبل ہی تنازعات کا شکار ہو گیا۔ 12 اکتوبر شروع ہونیوالے فرسٹ کلاس سیزن میں 26 ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔ ٹورنامنٹ کو قائد اعظم ٹرافی گولڈ اور سلور کا نام دیا گیا ۔ ٹورنامنٹ میں 300 سے زائد میچز کھیلے جائیں گے۔ تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریار خان موجودہ نظام سے ناخوش ہیں۔ وہ اس فارمیٹ میں تبدیلی اور ڈومیسٹک کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد میں کمی چاہتے ہیں۔ شہریار خان ٹیموں کی تعداد کو کم کر کے مقابلے کی فضاءسخت اور معیاری کرکٹ کے حامی ہیں۔ یاد رہے کہ نئے فارمیٹ کا اعلان چند ہفتے قبل سابق چیئرمین اور موجودہ گورننگ بورڈ کے اہم رکن نجم سیٹھی نے کرتے ہوئے اسے ملکی کرکٹ کے لئے سنگ میل قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق چیئرمین بننے کے بعد شہریار خان نے گورننگ بورڈ سے عبوری کمیٹی کے کئے گئے تمام فیصلوں کی منظوری بھی پہلے اجلاس میں ہی کروالی تھی۔ یادرہے کہ موجودہ فارمیٹ عبوری کمیٹی نے تین سال تک کے لئے منظور کیا تھا۔ اس کے نظام کے نفاذکی ذمہ داری کرکٹ کمیٹی کے موجودہ چیئرمین شکیل شیخ کی ہے۔ اس فارمیٹ کا مرکزی خیال ہارون رشید کا تھا جبکہ سابق چیئرمین کرکٹ کمیٹی ظہیر عباس کو بھی اس کی مکمل حمایت حاصل تھی۔
شہریار خان کم ٹیموں کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں شمولیت کے حق میں ہیں لیکن انہیں اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے گورننگ بورڈ کے ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنا ہو گی۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں ٹیموں کی تعداد کم کرنا ایک مشکل مرحلہ ہے نسیم اشرف کے دور میں بھی ایسی ایک کوشش کی گئی تھی اس ضمن گورننگ بورڈ کے اراکین فیصلہ بھی کر چکے تھے تاہم دباﺅ کے باعث فیصلہ بدلنا پڑا۔ بورڈ چیئرمین کے ان خیالات پر کرکٹ بورڈ کے اندر بھی بے چینی پائی جاتی ہے۔ جو لوگ نئے فارمیٹ کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر رہے تھے ان کے لئے اس فارمیٹ کا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ 12 اکتوبر سے گولڈ اور سلور کے تحت شروع ہونیوالے فرسٹ کلاس سیزن میں محکموں اور علاقائی ٹیمیں آمنے سامنے آئیں گی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ ماضی میں بھی یہ تجربہ کر چکا ہے۔تاہم اس مرتبہ علاقائی ٹیموں کے لئے سپانسر شپ تلاش اور زیادہ پیسہ شامل کر کے اس نئے نظام کی کامیابی کے لئے کرکٹ بورڈ کا تھنک ٹینک دن رات ایک کئے ہوئے فارمیٹ کی کامیابی ہی شہریار خان کی سوچ بدل سکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن