• news

کمزور تنظیمی ڈھانچہ، پیپلز پارٹی کے پنجاب میں بڑی قوت بننے کے امکانات کم ہیں

لاہور (سید شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر زرداری نے پنجاب کے شہروں، قصبوں، محلوں، گلی کوچوں میں جانے اور پارٹی کو فعال کرنے کا اعلان تو کردیا مگر پنجاب پیپلز پارٹی اور لاہور پیپلز پارٹی کی کمزور تنظیموں کی حالت بہتر بنانے کیلئے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔ پنجاب میں پی پی پی کے موجودہ کمزور تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ پیپلز پارٹی کی فعالیت اور ایک بڑی قوت بننے کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں۔ ماضی میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کی تنظیمیں ہر اہم موقع پر تقریبات کا بندوبست کرتی تھیں مگر اب یہ تقریبات صرف پنجاب اور لاہور پیپلز پارٹی کے دفاتر کی حدود تک محدود ہوگئی ہیں جس میں صرف عہدیدار ہی شرکت کرکے ’’ثوابِ دارین‘‘ حاصل کرلیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کی یوم ولادت اور یوم شہادت پر اب کھلے مقامات یا بڑے ہالز میں اجتماعات کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے کیونکہ وہاں پر دونوں تنظیموں کی ’’اصل قوت‘‘ ایکسپوژ ہوجاتی ہے۔ میڈیا سے رابطہ میں پنجاب اور لاہور تنظیم کی غفلت اور کمزوری کا مظاہرہ زرداری کی لاہور آمد اور قیام کے دوران بھی ہوا۔ آصف زرداری 6 دن سے مسلسل سیاسی رابطوں، پارٹی عہدیداران سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں لیکن میڈیا کو گزشتہ روز پہلی بار کے احتجاج کے بعد کچھ اطلاعات فراہم کردی گئیں۔ زرداری کی مصروفیات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا۔ پیپلز پارٹی پنجاب اور لاہور کے پرانے کارکنوں اور ’’مستند جیالوں‘‘ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں تمام کامیابیاں تنظیم اور عوامی رابطے کی بنا پر حاصل کی تھیں۔ بھٹو اور بینظیر بھٹو خود کارکنوں کو جانتے اور ان سے ملتے تھے۔ زرداری اگر پنجاب میں پیپلز پارٹی کی بحالی چاہتے ہیں تو خود ورکرز سے رابطے رکھیں۔ ’’چنیدہ‘‘ کارکنوں کو بلانے اور انکی ’’طے شدہ‘‘ گفتگو سننے کی بجائے کھلی کچہری لگائیں۔

ای پیپر-دی نیشن