عدم تشدد کا مظاہرہ کرکے مسلم لیگ ن کی حکومت سیاسی جنگ جیت چکی ہے: جاوید ہاشمی
ملتان ( سپیشل رپورٹر) پی ٹی آئی کے سابق صدر اور این اے 149سے آزاد امیدوار جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ عدم تشدد کا مظاہرہ کرکے مسلم لیگ (ن) کی حکومت سیاسی جنگ جیت چکی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ میری تمام سیاسی پارٹیوں خاص طور پر مسلم لیگ (ن) سے اپیل ہے کہ وہ حلقہ 149کے الیکشن کو پرامن بنانے کیلئے کردار بھرپور طریقے سے ادا کریں۔ میں نے پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں بہت مرتبہ یہ واضح کیا تھا کہ ملتان نوازشریف کا لاہور سے بھی بڑا قلعہ ہے۔ پی ٹی آئی ایک طرف ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کررہی ہے دوسری طرف 10اکتوبر کو ملتان میں جو جلسہ کیا جا رہا ہے وہ بھی انتخابی جلسہ ہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی کو بھی پتہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی ملتان میں جڑیں بہت گہری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ دو روز میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں ان کی حمایت کا اعلان کر دیں گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) میری حمایت کرنا چاہتی ہے تو ان سے درخواست ہے کہ وہ اپنے ٹائیگرز کو کنٹرول میں رکھیں ان کو انتخابی فضا کو سازگار رکھنے کا پابند کریں یہی میری بہت بڑی مدد ہوگی۔ میں نے پہلے بھی کہہ دیا تھا اور اب پھر دہرا رہا ہوں کہ دھرنے اٹھ جانے کے بعد نوازشریف کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔ دھرنوں سے ملک میں تبدیلی نہیں آسکتی۔ اگر میں جیت گیا تو علاقے کے ترقیاتی کاموں کیلئے وزیراعظم نوازشریف سے بہت سی باتیں منوائوں گا۔ شیخ رشید کی طرف سے مناظرے کے چیلنج کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہاکہ وہ کسی بھی وقت پریس کلب ملتان میں صحافیوں کے روبرو شیخ رشید سے مناظرے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہاکہ شاہ محمود قریشی میرے حلقے کا ووٹر ہے میں اس کے پاس ووٹ مانگنے کیلئے جانے کیلئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ملتان میں لوگ میرے حق میں فیصلہ دے چکے ہیں۔ عید گاہ واقعہ پر افسوس ہوا اگر میں وہاں رکتا تو خون خرابہ ہو سکتا تھا جس کی ذمہ داری بعد میں مجھ پر عائد کی جاتی۔ میڈیا نے اس واقعہ کو تیسری جنگ عظیم بنا کر پیش کیا انہیں گو عمران گو کے نعرے سنائی نہیں دئیے۔ دو چار بیمار ذہن لوگ مسجدوں اور جنازوں کا احترام ختم کر رہے ہیں عدم برداشت کے رویوں سے تبدیلی ممکن نہیں۔ الیکشن کمشن کو انتخابات کے موقع امن و امان قائم رکھنے کیلئے اقدامات کرنا پڑیں گے میں اپنے لئے بلٹ پروف گاڑی اور جیکٹ نہیں مانگوں گا۔ گاڑیوں میں پھرنے والی یوتھ کو سیاسی سوجھ بوجھ نہیں وہ عمران کو صرف کپتان کے طور پر جانتے ہیں۔ عید گاہ واقعہ پر انہوں نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر نہ جانے کیا کیا چل گیا۔ میں جب ان چند نعرے لگانے والے لوگوں کے پاس گیا تو انہوں نے بس یہی کہا کہ ہمیں آپ سے یہی گلہ ہے کہ آپ الیکشن جیت کر میاں نواز شریف کی پارٹی میں نہ چلے جائیں آپ سے ہمیں اور کوئی اختلاف نہیں۔ وہاں کوئی اہلکار یا ذمہ دار آدمی نہیں کھڑا تھا اگر کوئی بڑا واقعہ ہو جاتا تو سارا ملبہ مجھ پر گر جاتا۔ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت یا لیڈر نہیں ہے جو اقتدار میں آکر عوام کی بات کرتے ہوں، نواز شریف ہوں یا کوئی اور سب حزب اختلاف میں بیٹھ کر عوام کی بات کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے نوجوان میری انتخابی مہم بھرپور انداز میں چلا رہے ہیں، میں سیٹ چھوڑ کر آیا ہوں۔ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) یا کسی اور جماعت کے ڈسپلن کا پابند نہیں نہ ہی کسی جماعت کا ایجنڈا لے کر الیکشن لڑ رہا ہوں، عوام ووٹ کے ذریعے حکومتیں بدلیں اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کو جلسے کرنے چاہئیں۔ میں لمبی سیاسی اننگز کھیل چکا ہوں اور کھیل رہا ہوں، استعفیٰ دینے کے بعد ملتان میں عوام کے دروازے پر دستک دے رہا ہوں، یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ عوام فیصلہ حق وسچ کے حق میں دیں۔ ہم نئے سیاسی ڈرامے ہوتے دیکھتے ہیں جو نعرہ اب تحریک انصاف لگا رہی ہے نئے پاکستان کا تو یہ نعرہ 1970ء میں جب پاکستان آدھا رہ گیا تھا تو بھٹو نے لگایا تھا یہ کوئی نیا نعرہ نہیں ہے۔ عمران خان نے شیخ رشید سے کہا تھا کہ میں اپنے دفتر میں تمہیں چپڑاسی بھی نہیں رکھوں گا۔ میں سیاسی ورکر ہوں چیلنج شیخ رشید نے کیا تھا اب وہ چیلنج سے بھاگ کیوں رہے ہیں، وہ ہمت کریں میرا مقابلہ کریں۔ میرے پاس میری آباؤاجداد کی جو زمین ہے وہ ہی ہے، اگر کوئی اضافہ ثابت کردے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا۔ شاہ محمود اور شیخ رشید بتا دیں کہ ان کے اباؤاجداد نے کتنی زمینیں چھوڑی تھیں اور ان میں کتنا اضافہ ہوا۔ عمران خان کی کمٹمنٹ تھی کہ ہم استعفے دیں گے اور منظور کرائیں گے، اب وہ استعفیٰ کیوں منظور نہیں کرا رہے۔ میں حلفاً کہتا ہوں کہ میں نے اب تک کسی سے ووٹ کی بات نہیں کی۔ میں قتل وغارت کی سیاست نہیں کرتا نہ ہی تشدد کی سیاست کرتا ہوں۔ میں انتخابی مہم چلانے پر مسلم لیگ(ن) کی قیادت کا مشکور ہوں۔جاوید ہاشمی نے کہا کہ 1970ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے نئے پاکستان کا نعرہ لگایا تو ملک دو لخت ہو گیا۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے نظم و ضبط کا پابند نہیں ہوں، دونوں جماعتوں نے لکھی لکھائی تقریروں کے سوا آج تک کوئی نئی بات نہیں کی۔نئے پاکستان کی ہر تقریر کا موضوع 1960ء سے لکھا جا رہا ہے لیکن کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ 50 سال سے سیاست میں ہوں لیکن اگر اثاثوں میں اضافہ ثابت ہو جائے تو سیاست چھوڑ دوں گا۔