پولیس کے سامنے ملزم کے اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں : بچی سے زیادتی کے کیس میںخانہ پری نہیں چلنے دینگے : جسٹس ثاقب نثار
لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے بچی سے زیادتی کے ملزم کو مجسٹریٹ کے روبرو پیش نہ کرنے پر ایس پی سی آئی اے عمر ورک کی سرزنش کرتے ہوئے قرار دیا کہ بچی سے زیادتی کے کیس میں خانہ پری نہیں چلنے دینگے۔ عدالت نے ایک ماہ میں ملزم آصف سے تفتیش مکمل کر کے رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے مزید قرار دیا کہ کہ پولیس کے سامنے ملزم کے اعترافی بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب حنیف کھٹانہ اور ایس پی سی آئی اے عمر ورک نے رپورٹ جمع کراتے ہوئے کہا کہ ریلوے پولیس سٹیشن نے مغلپورہ کے رہائشی محمد آصف کو گزشتہ ماہ ریلوے سٹیشن سے ایک کمسن بچی کو اغوا کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا ہے۔ ایس پی سی آئی اے نے کہا کہ ملزم نے دوران تفتیش اعتراف کیا ہے کہ اس نے بارہ ستمبر کو ایک اور پانچ سالہ بچی کو مغلپورہ سے اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنایا اور گنگارام ہسپتال چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ ملزم نے تھانہ غازی آباد کے علاقے میں بھی ایک بچے کو اغوا کر کے زیادتی کا نشانہ بنانے کا اعتراف کیا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا ملزم کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کر کے دفعہ 164 کا بیان ریکارڈ کرایا گیا ہے یا نہیں جس پر ایس پی سی آئی اے نے کہا کہ ابھی ملزم جسمانی ریمانڈ پر ہے اور جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے حوالے نہیں کیا گیا جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ایس پی سی آئی اے کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تین ہفتے گزرنے کے باوجود ملزم کا علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ عدالت خود اس کیس کی نگرانی کر رہی ہے۔ پولیس یہ بھول جائے کہ کسی طرح سے یہ کیس دبا دیا جائیگا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کرتے ہوئے ملزم کو علاقہ مجسٹریٹ کے روبرو پیش کرنے اور تفتیش مکمل کرکے چالان ٹرائل کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیدیا۔
بچی زیادتی کیس