• news

’’گزر رہی ہو جیسے کسی ’’شاہ‘‘ کی سواری‘‘وی آئی پی موومنٹ اور شہریوں کی مشکلات

خالد یزدانی
بادشاہت کے زمانہ میں جب شہنشاہ کی سواری گزرنے والی ہوتی تو کسی کی مجال نہ تھی کہ وہ سر تسلیم خم کرکے کھڑا نہ ہوتا اور حکم عدولی کی سزا اتنی کڑی تھی کہ کوئی سرتابی کی جرأت نہ کر سکتا تھا۔ تاریخ  کئی شہنشا ہوں کے جاہ و جلال اور انداز حکمرانی سے بھری ہوئی ہے اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ بادشاہوں کی سلطنتیں بھی انقلابات زمانہ کی نذر ہونے لگیں اور اب دور جدید میں دنیا کے جن ممالک میں ’’بادشاہت‘‘ قائم ہے‘ وہ بس نام کی ہی ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کی سرزمین پر سورج غروب نہیں ہوتا اور آج صورت حال یہ ہے کہ اسے آئرلینڈ کو اپنے ساتھ رکھنے کیلئے وہاں کے عوام کو ریفرنڈم کا حق دینا پڑا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج روزانہ ہزاروں سیاح بکنگھم پیلس کے باہر یا وزیراعظم برطانیہ کے حوالے سے شہرت رکھنے والی دس ڈائوننگ سٹریٹ پر کھڑے ہوکر تصاویر بنواتے ہیں۔
اگرچہ نائن الیون کے بعد سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دنیا بھر میں اہم شخصیات اور عمارات کی حفاظت کیلئے اقدامات اٹھائے  گئے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تو ’’وی آئی پی‘‘ کلچر کو اتنا فروغ نہ ملا ہو جتنا ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں اس کلچر کو ملا۔ کبھی وی آئی پی کے نام پر ہوائی اڈوں پر الگ سے انتظامات کا اہتمام ہوتا تھا یا جب ملک کی کل آبادی مغربی اور مشرقی پاکستان چھ سات کروڑ تک محدود تھی اور ان دنوں جب گورنر مغربی پاکستان کی ’’سواری‘‘ نے کبھی گورنر ہائوس سے ہوائی اڈے یا گورنر ہائوس سے کسی غیرملکی مہمان کے ساتھ شالا مار باغ اور شاہی قلعہ کا دورہ کرنا ہوتا تو چند منٹوں کیلئے ’’شاہراہ قائداعظم‘‘ پر ٹریفک جو اس وقت برائے نام تھی‘ روک دی جاتی اور دونوں اطراف پر پیدل سڑک عبور کرنے والوں کو بھی پولیس کا سپاہی ہاتھ کے اشارے سے منع کرتا تھا اور اچانک ’’وی آئی پی‘‘ کی کاریں حفاظتی موٹرسائیکلوں اور کاروں کے سکواڈ کے ساتھ گزر جاتیں تو عوام سکھ کا سانس لیتے تھے مگر آج صورتحال یکسر بدل گئی ہے۔ کراچی ہو یا لاہور‘ اسلام آباد کی سڑکیں ہوں یا پشاور ٹریفک کا بھی اژدھا ہے اور ان کو کنٹرول کرنے کے انتظامات بھی محدود ۔ ایسے میں جب کسی ’’وی آئی پی‘‘ کی آمد ہو تو واقعی ’’رن کانپنے لگتا ہے۔‘‘ یا پھر عام آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے۔
’’گزر رہی ہو جیسے کسی شاہ کی سواری‘‘
وی آئی پی موومنٹ نے فی الوقت عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہی کیا ہے  اور حکمرانوںاور عام آدمی  کے درمیان خلیج حائل ہو گئی ہے جبکہ یورپی ممالک میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ وہاں سب ایک ہی لائن میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور
’’ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے  محمود و ایاز‘‘
 کی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ حال ہی میں میری طرح آپ نے بھی ٹی وی سکرین پر دیکھا ہوگا کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکہ کا صدر باراک اوباما ایک ریسٹورنٹ میں دوسرے گاہکوں کی طرح کھانا لیتے دکھائی دیئے اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لائن میں لگ کر ٹکٹ حاصل کرتے ہیں اور سیٹ نہ ملنے پر ٹرین میں کھڑے ہو کر سفر کرتے ہیں  تو پھر ان کے افسر اور وزیر کس شمار میں۔ ہمارے ہاں اچانک  سڑکوںپر جب ہوٹروں کے شور میں اچانک تیزرفتارگاڑیاں دوڑتی بھاگتی ہیں تو فضائوں میں بھی خاموشی سی چھا جاتی ہے اور اس کی وجہ آج یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ تخریب کاری کا خدشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عوام کی حفاظت  کرنے  والے ادارے خود ایک ایسے ’’حصار‘‘ میں بیٹھے ہیں جہاں عام آدمی کا  فریاد  لے کر پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
وی آئی پی شخصیات کی حفاظت بجا ‘ لیکن اس کیلئے راستوں کو بند کرکے عام ٹریفک کو دوسری طرف موڑنے سے جو دبائو ان سڑکوں پر نظر آتا ہے اور گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے تو اس سے سکول‘ کالج کے طالبعلموں سے لے کر کاروباری طبقہ یا ملازمت پیشہ افراد کا بروقت کسی جگہ پہنچنا بھی دشوار ہوجاتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کے  رویوں میں بھی شدت آ جاتی ہے کچھ عرصہ قبل کراچی ائرپورٹ پر ایک سابق وفاقی وزیر اور ایم این اے کے حوالے سے قومی ائر لائن کی پرواز میں تاخیر  پر ناصرف جہاز کے مسافر سراپا احتجاج بن گئے تھے بلکہ وہ احتجاج اتنا بڑھا  کہ سابق وزیر اور ایک ایم این اے  کو جہاز سے باہر جانا پڑا اسی طرح وی آئی پی کلچر کے خلاف عوامی احتجاج بڑھ رہا ہے اور اس میں میڈیا کا بھی کردار ہے جس نے اس حوالے سے عام آدمی کی مشکلات کو اجاگر  کیا یہی وجہ ہے کہ اب عوامی سطح پر بھی وی آئی پی کلچر کے خلاف مؤثر آواز بلند ہوئی اور لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس حوالے سے  اہم پیش رفت ہو گی  اور عام آدمی کو آمدورفت کے حوالے سے سہولیات میسر ہوں گی  اور قوم وی آئی پی کلچر سے نجات پا سکے۔ کیونکہ اسلام کی تاریخ گواہ ہے کہ خلفائے راشدین نے نا صرف سادگی کا درس دیا تھا بلکہ خود اس پر عمل کر کے دکھایا

ای پیپر-دی نیشن