تفریحی مقامات پر اشیاء کی ہوشربا قیمتیں
صابر بخاری
bukhariaims@gmail.com
پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے سیروتفریح کے مواقع ماند پڑتے جارہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میلے ٹھیلے، سینما ہال، پارکس، صحت افزا مقامات پر عوام کا جم غفیر ہوتا تھا اور لوگ خوب سیروتفریح سے لطف اندوز ہوئے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ دہشتگردی کے ناسور اور سیاحت کے شعبہ کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آج لوگوں میں سیروتفریح کارجحان کم ہورہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک صرف سیاحت سے بے پناہ پیسہ حاصل کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں اس شعبہ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ہمارے سروتفریح کے مقامات بے شمار مسائل کا شکار ہیں مگر ان پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ۔ راقم الحروف ان مسائل میں سے صرف ایک مسئلہ اشیاء کی ہوشربا قیمتوں کو یہاں قارئین کی نذر کرنے کی جسارت کررہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ عوام کو زیادہ سے زیادہ سیروتفریح کے مواقع فراہم کرنے کیلئے جو حکومت کی ذمہ داری بھی ہے صحت افزاء مقامات، پارکس اور دوسرے سیروتفریح کے مقامات پر اشیاء کے معیار اور ان کی مناسب قیمتیں برقرار رکھنے کیلئے حکومت اور متعلقہ ادارے کوئی کمپرومائز نہ کریں۔ مگر جس طرح باقی اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کا فقدان ہے۔ اسی طرح سیروتفریح کے مقامات پر اشیاء کی مناسب قیمتیں برقرار رکھنے کا بھی فقدان ہے۔ صحت افزاء مقامات،پارکس، تاریخی مقامات پر قائم کنٹینیں، کھوکھے، ریسٹورنٹس کے ٹھیکے من پسند افراد کو کم قیمتوں پر دیئے جاتے ہیں۔ اس کے بعد متعلقہ ادارے لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ اور یہ ٹھیکیدار اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے عوام کی چمڑی ادھیڑ لیتے ہیں اکثر اوقات سادہ لوح افراد سے تو اشیاء کی کئی گناہ قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ نہ دینے کی صورت میں ٹھیکیدار کے مسٹنڈے لوگوں کا مارمار کر برا حال کردیتے ہیں اور سکیورٹی گارڈ کے حوالے کردیتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈ بھی ان کے ساتھ ملے ہوتے ہیں کیونکہ ان کو کنٹین سے سستی اور مفت چیزیں مل جاتی ہیں سیروتفریح کے مقامات پر قائم ہوٹلوں کا معیاربھی ناقص ہوتا ہے۔ کنٹین اور وہاں کام کرنے والے ملازمین حفظان صحت کے اصولوں پر عمل پیرا نہیں ہوتے جس کی وجہ سے اکثر لوگ ایسی جگہوں سے چیزیں کھانے سے پیٹ کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اوپر سے اشیاء کی ہوشربا قیمتیں سن کر لوگ بے ہوش ہی ہوجاتے ہیں مگر اب چیز لینے کے بعد لوگوں کو اتنی قیمت ہر صورت میں دینی پڑتی ہے۔ جتنی دکاندار ڈیمانڈ کرے پارکس وغیرہ میں ایسا کوئی کائونٹر بھی نہیں ہوتا جہاں لوگ شکایات درج کراسکیں۔ شکایات کرائیں بھی تو کسے؟ جب سب کچھ انتظامیہ اور ٹھیکیدار کے میل ملاپ سے ہورہا ہوتا ہے۔ پارکس اور دوسرے صحت افزاء مقامات پر بچوں کے جھولے، سلائیڈنگ وغیرہ مفت ہونے چاہیں مگر انتظامیہ جھولوں وغیرہ کی بھی ٹکٹ لیتی ہے جو سراسر زیادتی ہے۔ ان مقامات پر پینے کے پانی کی کئی سہولت میسر نہیں ہے۔ کیونکہ انتظامیہ ٹھیکیدار کے ساتھ مل کر ایسا نہیں کرتی اس طرح لوگوں کو مجبوراً منرل واٹر خریدنا پڑتا ہے۔ پارکس اور دوسرے تفریحی مقامات پر قائم ٹائلٹس کے استعمال پر بھی کافی چارجز لیے جاتے ہیں۔ بعض پارکس اور تفریحی مقامات پر کار، موٹر سائیکل پارکنگ کے بھی پیسے وصول کئے جاتے ہیں اگرہم ہل اسٹیشنز کی بات کریں تو وہاں پر رہائش اور کھانے پینے کی چیزیں اتنی مہنگی ہیں کہ وہاں عام آدمی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ عوامل ہی عوام کو گھر سے تفریح مقامات تک لے جانے میں رکاوٹ ہیں لوگ گھروں پر ہی زیادہ پرسکون محسوس کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ پارکس یا دوسرے تفریحی مقامات پر جانا کافی مہنگا ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ گھر پر رہ کر ہی آرام اور سکون کریں نتیجتاً ہمارے ملک میں عالمی اور مقامی سیاحت کم ہوتی جارہی ہے حکومت اور دوسرے متعلقہ ادارے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں لاہور میں جتنے زیادہ تر پارکس اور تاریخی مقامات جن میں خاص طور پر شاہی قلعہ، شالامار باغ، مقبرہ جہانگیر، باغ جناح وغیرہ شامل ہیں یہاں کھانے پینے کی قیمیتں کافی زیادہ ہیں۔دکانداروں کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی اور ٹھیکہ کی وجہ سے قیمتیں بازار کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔ راقم الحروف نے مشاہدہ کیا کہ پی ایچ اے نے پارکس میں کھانے پینے کی چیزوں کی مناسب قیمتیں اور معیار برقرار رکھنے کیلئے کافی انتظامات کئے ہیں پی ایچ اے کے ترجمان جاوید شیدا کے مطابق پی ایچ اے اشیاء کی قیمتوں اور معیار پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ صرف بجلی پر چلنے والے جھولوں کے ٹھیکیدار ہی ٹکٹ وصول کرتے ہیں۔ پی ایچ اے نے عوام کو پرسکون سیرو تفریح کے مواقع میسر کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ شاہی قلعہ سے ذرائع کے مطابق یہاں پر چیزوں کا معیار اچھا ہوتا ہے اس لئے قیمتیں زیادہ ہیں اس کے علاوہ کنٹین ٹھیکیدارسے 16% جی ایس ٹی اور پچیس لاکھ روپے سالانہ کرایہ بھی لیا جاتا ہے بجلی بھی کمرشل ہے اس لئے کنٹین پر چیزیں زیادہ مہنگی ہیں۔ حکومت اور سیاحت سے متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ مری اور دوسرے ہل سٹیشن پر عام لوگوں کی خریداری کیلئے اتوار بازار طرز کے بازار قائم کریں۔ حکومت اپنی رہائش گاہیں تعمیر کرے جہاں سیاحوں کو کم قیمت پر رہائش دی جائے۔ کھانے پینے کی چیکنگ کا نظام سخت کیاجائے۔ مختلف شہروں سے سیاحت بسیں چلائی جائیں جو کم کرائے پر شہریوں کو سیاحتی مقامات تک پہنچیں۔ ان مقامات پر سستے اور معیاری ہوٹل بنائے جائیں پارکس میں بچوں کے جھولے، پارکنگ وغیرہ کی فیس ختم کی جائے۔ پارکس اور دوسرے سیاحتی مقامات پر پانی کے کولر لگائے جائیں کیونکہ ہر شخص منرل واٹر نہیں خریدسکتا۔ انتظامیہ سختی سے کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتیں چیک کریں اور دکاندار لسٹ سامنے آویزاں کرے۔ زیدہ قیمت وصول کرنے والے دکانداروں کیخلاف کارروائی کی جائے۔ انتظامیہ پارکس اور دوسرے مقامات پر شکایات نمبر درج کرے تاکہ شہری کسی بھی قسم کی پریشانی کی صورت میں رابطہ کر سکیں اور انتظامیہ بھی بروقت رسپانس دے تاکہ شہریوں کا اعتماد بحال ہو۔ کھانے پینے کی چیزوں کی چیکنگ بھی ضروری ہے۔ ہماری زیادہ آبادی غریب ہے۔ حکومت اور سیاحتی اداروں کو چاہیے کہ عام آدمی کو سیروتفریح کے مواقع فراہم کرنے کیلئے سیاحت کو سستا بنائیں تاکہ ہر شخص صحت افزا اور سیاحتی مقامات کا لطف اٹھا سکے اور ایک صحت مند معاشرہ تکمیل پاسکے