ملتان کے جلسے کے آفٹر افیکٹس
پہلے تو شاہ محمود قریشی کو اس بات میں مشکل پیش آ رہی ہے کہ جلسے میں لوگوں کا اتنا بڑا اجتماع عمران خان کی وجہ سے ہوا کہ شاہ محمود کی مقبولیت کا نتیجہ تھا۔ وہ اگر اپنے آپ کو عمران سے زیادہ نہیں سمجھتا تو کم بھی نہیں سمجھتا۔ اس نے عمران سے بھی لمبی گفتگو کی۔ ملتان کے علاوہ میانوالی کی نمائندگی بھی اس نے کی۔ اس نے عمران سے پہلے تقریر کی اور میانوالی کے کسی آدمی کو تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ ملتان میں تو عطااللہ عیسیٰ خیلوی نے گیت گایا مگر میانوالی میں اجازت نہیں ملی۔ میانوالی کے لوگ شاہ محمود سے محبت کرتے ہیں یا عطااللہ عیسیٰ خیلوی سے محبت کرتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ میانوالی کی پہچان اب بھی عطااللہ عیسیٰ خیلوی ہے مگر اب اسے عمران خان کی معرفت اپنی پہچان کرانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
اب تک ہونے والے عمران کے سب جلسوں میں سب سے کمزور اور غیرمنظم جلسہ ملتان کا تھا۔ اور اس کا کریڈٹ شاہ محمود کو جاتا ہے۔ سٹیج پر جانے کے لئے سیڑھی بڑی کمزور تھی۔ عمران کھمبے کے ذریعے سٹیج پر گئے۔ لاہور کا واقعہ یاد آ گیا۔ جب لفٹر کی بے احتیاطی سے عمران گر گئے تھے۔ وہ تو اللہ نے ان کی جان بچائی۔ یہاں بھی اللہ نے ان کی جان بچائی۔ وہ بہت قیمتی انسان ہیں۔ شاہ محمود کو احتیاط کے ساتھ انتظامات کرنا چاہئیں تھے۔
ملتان کے جلسے میں دھکم پیل بہت ہوئی۔ یہ سٹیڈیم اصل میں کرکٹ گرائونڈ ہے۔ شاہ محمود نے عمران کے اندر کا کھلاڑی مزید بیدار کرنے کے لئے یہاں جلسہ رکھا تھا۔ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ عمران اب بھی صرف کھلاڑی ہی ہے سیاست تو اس نے کھیل کھیل میں شروع کر رکھی ہے۔ ملتان میں بھی عمران خان نے کہا کہ وہ ایک گیند سے دو وکٹیں لے گا۔ نواز شریف اور زرداری کی وکٹ ایک ساتھ اڑائے گا۔ جبکہ یہ ٹیکنیکلی غلط ہے۔ وکٹ پر ایک بیٹسمین کھڑا ہو سکتا ہے۔ یہ نئی قسم کی کرکٹ ہے۔ اسے سیاسی کرکٹ کہنا چاہئے۔ عمران سیاست اور کرکٹ کو گڈ مڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے کہا ہے کہ کھلاڑی کبھی سیاستدان اور سیاستدان کبھی کھلاڑی نہیں بن سکتا۔ وہ شاید نواز شریف کو جانتے نہیں ہیں۔ نواز شریف باغ جناح میں کرکٹ کھیلتا رہتا ہے اور خوب چوکے چکے لگاتا ہے۔ وہ کرکٹ کا کھلاڑی تو ہے اور سیاستدان بھی ہے۔ تیسری بار وزیراعظم بننا کوئی معمولی بات تو نہیں ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری تو یونہی ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر مشہور ہو گئے ہیں۔ وہ تیسری بار صدر بنیں گے تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ سیاست کیا ہوتی ہے۔ زرداری پانچ سال پورے کرنے میں حیرت انگیز طور پر کامیاب ہوئے مگر آخری کامیابی نواز شریف کی تھی۔ اس کے لئے میں نے یہ مثال پیش کی تھی ’’سو سنار کی ایک لوہار کی۔‘‘
ابھی تو بلاول والد سے آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شاید زرداری بھی چاہتے ہیں؟
شاہ محمود جب تقریر کر رہا تھا تو اسے لگ رہا ہو گا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ سائونڈ سسٹم سے ڈی جی بٹ نے اطلاع دی کہ دو ساتھی بے ہوش ہو گئے ہیں تو شاہ محمود بہت ڈسٹرب ہوئے۔ انہوں نے ناپسندیدگی سے اشارہ کیا اور کہا ایسا ہوتا رہتا ہے۔ وہ اس کے بعد بھی 10منٹ تک بڑی مستی میں خطاب کرتے رہے۔ گرائونڈ میں جگہ کم تھی۔ بندے زیادہ تھے۔ دم گھٹنے سے برا حال تھا۔ لوگ گرائونڈ کے باہر بھی موجود تھے۔ شہر کے اندر پارکنگ اور رش کی وجہ سے ٹریفک بھی جام تھا۔
عمران نے تقریر میں جاوید ہاشمی کا ذکر نہ کیا مگر شاہ محمود نے کیا اور طنزیہ انداز میں کیا۔ جاوید ہاشمی اس کے باوجود جلسے میں بھگدڑ سے جاں بحق ہونے والوں کی نماز جنازہ میں آئے۔ اس کے بعد تحریک انصاف کے مادر پدر آزاد نوجوانوں نے ان کی گاڑی کو گھیر لیا اور نعرے بازی کی۔ یہ سب بدتمیزی ہے۔ جاوید ہاشمی کے اعتراف کے ساتھ ساتھ اس سے اختلاف بھی ہے۔ میرے خیال میں اسے ن لیگ چھوڑنا ہی نہیں چاہئے تھی۔ یہاں زیادہ تلخ حالات کا سامنا انہیں کرنا پڑا۔ ن لیگ میں چودھری نثار سے جاوید ہاشمی کو تحفظات تھے۔ تحریک انصاف میں شاہ محمود سے جاوید کی عزت بھی محفوظ نہیں رہی ۔ چودھری نثار کروڑ درجے شاہ محمود سے بہتر انسان اور سیاستدان ہیں۔ باغی ہاشمی ن لیگ میں بھی تھا۔ چودھری نثار کو اس پر اعتراض نہ تھا۔ شاہ محمود نے انہیں داغی بنا دیا۔ جس کا ماضی ہی داغدار ہو اسے حق نہیں ہے کہ کسی کو داغی کہے۔ یہ کہتے ہوئے شاہ محمود نے اپنے اندر کا بغض نکالنے کی کوشش کی۔
ن لیگ کے ایک صوبائی وزیر کو نشتر ہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے لئے نہیں جانے دیا گیا۔ وہ رکشے میں بیٹھ کر واپس آئے۔ یہ انداز سیاست قطعاً مناسب نہیں ہے۔ عمران خان اسی روایتی سیاست میں تھے۔ وہ بات انقلاب کی کرتا ہے اور راستے انتخاب کے اختیار کر رہا ہے۔ اس طرح تبدیلی آہستہ آہستہ ممکن ہے اور میں تو اس خوف میں مبتلا ہوں کہ عمران لوگوں کو مایوس کرے گا تو پھر کیا ہو گا۔
بات ملتان کے جلسے کی ہو رہی ہے۔ لوگ تو عمران خان کے لئے آئے تھے مگر شاہ محمود قریشی اپنے نمبر بنا رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو نمبر دو سمجھتا ہے اس کے لئے دو نمبر کاموں سے بھی اسے کام لینا پڑا ہے۔ اسے خواہش نمبر ون کی ہے اور وہ کبھی نمبر ون نہیں بن سکے گا۔ اس کے لئے عمران کوہٹانا ضروری ہے اور اس کے بعد تحریک انصاف ختم ہو جائے گی۔ شاہ محمود پھر کسی دوسرے کا نمبر دو بن جائے گا۔ برادر حامد میر نے بڑی اچھی طرح شاہ محمود کے خاندانی پس منظر کا ذکر کیا ہے شاہ محمود کا نام اس کے دادا شاہ محمود کی محبت سے رکھا گیا۔ بڑے شاہ محمودنے انگریزوں کی خدمت میں انتہا کر دی اور بڑی جاگیریں انعام میں حاصل کیں۔
ایک اور خوفناک بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جلسے میں لڑکیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں مصروف لڑکوں کو روکا گیا تو خنجر سے حملہ کر دیا گیا۔ بے چارہ تھانیدار زخمی ہو گیا۔ اے ایس آئی بشارت کو تشویش ناک حالت میں نشتر ہسپتال پہنچایا گیا مجھے ایک دوست نے فون کر کے بتایا کہ عمران جلسوں میں نوجوانوں کی اکثریت لڑکیوں کی وجہ سے جاتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کراچی اور لاہور میں ایسی بات نہیں تھی میانوالی میں تو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ شاہ محمود کے ملتان میں ایسا ضرور ہوا ہو گا۔ بھگدڑ ہی یہاں مچی۔ لوگ بھی یہاں اپنی جان سے گئے۔ غیر معمولی صورتحال صرف یہاں دیکھنے میں آئی ہے۔ اس حوالے سے شاہ محمود کا خیال ہے؟ صرف ضلعی انتظامیہ پر بغیر سوچے سمجھے اور ثبوت کے الزام لگا دینے سے بات نہیں بنے گی۔ بات کچھ اور ہے؟