• news

بلدیاتی انتخابات: حلقہ بندی اور فہرستوں کی تیاری الیکشن کمشن کے سپرد، آرڈیننس جاری ،28 اکتوبر تک مستقل چیف الیکشن کمشنر نہ آیا تو اپنا جج واپس بلا لیں گے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) صدر مملکت ممنون حسین نے انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں سے متعلق دو اہم آرڈیننس الیکٹورل رولز ترمیمی آرڈیننس 2014ء اور حلقہ بندیاں ترمیمی آرڈیننس 2014ء جاری کر دئیے ہیں جس کے بعد انتخابی فہرستوں کی تیاری اور حلقہ بندیوں میں تبدیلی کا اختیار الیکشن کمشن کو منتقل ہو گیا ہے۔ صدر نے یہ اختیارات الیکشن کمشن کو منتقل کرتے ہوئے ہدایت جاری کی ہے کہ یہ دونوں کام مکمل کر کے جلد بلدیاتی انتخاب کا انعقاد ممکن بنایا جائے تاکہ ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم کی جا سکے۔ آرڈیننس میں حلقہ بندیوں سے متعلق تنازعات کے حل کا اختیار بھی الیکشن کمشن کے سپرد کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور سندھ کو بلدیاتی الیکشن کیلئے قانون سازی کیلئے بل کل جمعرات تک اسمبلیوں میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے مقدمے کی سماعت میں سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو مستقل چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے کا حکم دیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر 28اکتوبر تک مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہوئی تو سپریم کورٹ اپنا جج واپس بلا لے گی جبکہ سندھ اور پنجاب کو بلدیاتی انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں اور دیگر معاملات مکمل کرنے کیلئے اڑتالیس گھنٹوں میں قانون سازی کا حکم دیا۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو وضاحت کیلئے وزیراعلیٰ سندھ اور پنجاب کو عدالت میں طلب کیا جائیگا اور توہین عدالت کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا کہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی آخر کب ہوگی ایک جج اضافی ذمہ داریاں پوری کررہا ہے جس سے عدالت میں کام کا حرج ہورہا ہے۔ سپریم کورٹ جج کے اور بھی کئی کام ہوتے ہیں حکومت آخر کب تک اداروں کو بغیر سربراہوں کے رکھے گی۔ پنجاب حکومت وفاقی حکومت اور الیکشن کمشن کی قانون سازی کا انتظار نہ کرے اور حلقہ بندیوں کے حوالے سے بل جمعرات تک اسمبلی میں پیش کرے۔ جسٹس اعجاز چوہدری نے ریمارکس دیئے ہیں کہ سات ماہ گزر گئے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے قانون سازی نہ ہونے کا ذمہ دار کون ہے کیوں نہ وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کر دیئے جائیں؟ پنجاب حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا وفاق جب تک قانون سازی نہیں کرتا اس وقت تک پنجاب بھی نہیں کرسکتا اور دونوں کی قانون سازی ہوگی تو تب ہی بلدیاتی انتخابات ہوسکیں گے۔ سندھ حکومت کی جانب سے جواب میں بتایا گیا ہے کہ حلقہ بندیوں اور دیگر حوالوں سے ایک آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جو گورنر سندھ کو بھجوایا گیا تھا تاہم انہوں نے اس پر دستخط کرنے کی بجائے اعتراض لگا کر واپس بھیج دیا تھا اس مسودے میں حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمشنر کو دیا گیا تھا اس جواب پر سپریم کورٹ برہم ہوگئی اور کہا کہ اتنا عرصہ گزر گیا قانون سازی کیوں نہیں ہورہی کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم وزیراعلیٰ سندھ کو بلائیں۔ ہم آپ کو جمعرات تک کا وقت دے رہے ہیں۔ بل سندھ اسمبلی میں پیش کیا جائے اگر بل پیش نہ ہوا تو وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرینگے۔ عدالت نے سندھ حکومت کا جواب مسترد کر دیا۔ عدالت نے یہی حکم حکومت پنجاب کو بھی جاری کیا اور کہا کہ پنجاب حکومت کو بھی جمعرات تک کی مہلت دی جاتی ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے وہ اپنا بل اسمبلی میں پیش کریں۔ خیبر پی کے حکومت کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت نے تمام تر قانون سازی کرلی ہے صوبے میں بائیو میٹرک نظام لاگو کیا جارہا ہے اس حوالے سے الیکشن کمشن سے بھی جلد بات ہوگی۔ ہم الیکشن کرانے کیلئے تیار ہیں۔ اس پر عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ آپ الیکشن کمشن سے رابطہ کرکے انہیں اپنی پیش رفت سے آگاہ کریں دو روز میں اجلاس بلا کر شیڈول طے کیا جائے۔ جسٹس ناصر الملک نے مستقل چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی نہ ہونے پر بھی سخت برہمی کا اظہار کیا اور اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ حکومت اور کتنی مدت چاہتی ہے ہم زیادہ دیر اپنا جج نہیں دے سکتے۔ یہاں عدالت میں بھی ان کے کام ہیں۔ حکومت سے پتہ کرکے بتائیں کہ وہ کب مستقل چیف الیکشن کمشنر لگا رہی ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیلئے اپوزیشن سے مشاورت جاری ہے اس کے لئے تین ہفتوں کی مہلت دی جائے تاہم عدالت نے ان کی یہ استدعا مسترد کر دی۔

ای پیپر-دی نیشن