میوہسپتال انتظامیہ طبی سہولتوں کیلئے کوشاں، محکمہ صحت نے کوئی اقدامات نہیں کئے
لاہور(ندیم بسرا) محکمہ صحت پنجاب کے موجودہ اور سابقہ سیکرٹریز نے تاریخی میوہسپتال کی حالت درست کرنے کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے جس کے باعث پنجاب کے سب سے بڑے میو ہسپتال میں انتظامیہ کی کو ششوں کے باوجود مریضوں کو مکمل طبی سہولتیں دستیاب نہیں۔ مریضوں کے خراب مالی حالات کے باوجود پروفیسرز ہسپتال میں موجود ادویات لکھنے کی بجائے مہنگی ادویات لکھنے لگے۔ سرجیکل ٹاور کا منصوبہ گزشتہ 9برسوں سے مکمل نہ ہوا۔ اینڈو سکوپی، اینجو گرافی، نیفرالوجی کی مشینیںخراب ہو گئیں۔ ہسپتال کی انتظامیہ مخیر حضرات سے امداد لے کر نئے وارڈز بنانے اور نئی مشینری لانے میں مصروف عمل۔ ایم ایس ڈاکٹر امجد شہزاد کا کہنا تھا ہسپتال میں 100 فیصد مفت ادویات فراہم کی جا رہی ہیں اور سرجیکل ٹاور 30جون 2015 کو مکمل ہو جائے گا جس کے بعد تمام سرجری کے شعبے اس میں منتقل ہو جائیں گے۔ ایمرجنسی میں 128 سلائیڈ کی جدید ترین سی ٹی سکین مشین لگائی جارہی جس سے ایمرجنسی میں دو سی ٹی سکین مشینیں ہو جائیں گی۔ ایسٹ میڈیکل وارڈ کو 60 بیڈز پر مشتمل نیا وارڈ بنا دیا گیا ہے جس کا افتتاح رواں ہفتے ہوجائے گا۔ خواتین کے بریسٹ کینسر کی تشیخص کیلئے میموگرافی مشین لگادی گئی ہے جہاں مفت ٹیسٹ کئے جائیں گے۔ لیبارٹری نئی بنائی جارہی ہے جس سے ٹیسٹوں کا معیار اور بہتر ہوگا۔ ان کا کہنا تھا ہسپتال کا تمام ڈیٹا اور مریضوں کا تما م ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لئے60 ملین روپے کا پراجیکٹ شروع کر دیا ہے جس کے بعد مریضوں کا ریکارڈ ایک ہی کمپیوٹر پر ہوگا۔ میو ہسپتال تقریبا 24سو بیڈز پر مشتمل ہسپتال ہے۔ ہسپتال کی بلڈنگ انتہائی تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ محکمہ صحت پنجاب، سی اینڈ ڈبلیو نے اس تاریخی ورثے کو بچانے کے لئے اقدامات نہیں کئے جس کی وجہ سے اے وی ایچ (البرٹ وکٹر ہسپتال)کے اوپرکا گنبد ٹوٹ چکا ہے۔ ساوتھ میڈیکل وارڈ گرنے کے قریب ہے مگر یہاں 20 سے 30 خواتین مریض داخل رہتی ہیں۔ نارتھ میڈیکل وارڈ کو 5برسوں سے خالی کرایا ہے مگر اس کو گرایا نہیں گیا۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات کا چرچہ کرنے کے لئے پروفیسرز ان ڈور میں داخل مریضوں کو وہ ادویات لکھ دیتے ہیں جو ہسپتال میں دستیاب نہیں جس سے غریب مریض کی جیب خالی ہو جاتی ہے۔ سرجیکل ٹاور کی تعمیر مکمل ہو جاتی تو ہسپتال میں 580 بیڈز کا اضافہ ہوجاتا۔60 نئے آپریشن تھیٹرز دستیاب ہوتے۔ متعدد پروفیسرز کی کمی ہے جس میں بچہ سرجری،کارڈیک سرجری، نیوروسرجری، اس کے ساتھ ٹرینی ڈاکٹرز کی بھی شدید کمی ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کو مفت ادویات فراہم کی جارہی ہیں مگر داخل مریضوں کے ٹیسٹ فری نہیںکئے جاتے مریضوں کو فری ٹیسٹ کرانے کے لئے پروفیسرز کی منتیں کرنی پڑتی ہیں۔ ہسپتال کی ایمرجنسی میں دل کے مریضوں کو کور نہیں دیا جاتا۔