عوام نے تبدیلی کا راستہ چُن لیا، پرویزالٰہی: خاندانی سیاست ختم کی جائے: شجاعت
لاہور (خصوصی رپورٹر) ق لیگ کے رہنما و سابق نائب وزیراعظم چودھری پرویزالٰہی نے کہا ہے کہ عوام نے تبدیلی کا راستہ چن لیا ہے، نواز اور شہبازشریف جتنے بھی غیرآئینی و غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کر لیں وہ ان کا راستہ نہیں روک سکتے، انشاء اللہ لاہور میں بھی ہمارا اتحادی جماعتوں کا جلسہ فیصل آباد کی طرح نئی تاریخ رقم کریگا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ ہائوس میں سات اضلاع لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، اوکاڑہ، قصور، نارووال اور ننکانہ صاحب کے پارٹی عہدیداروں، ٹکٹ ہولڈرز اور رہنمائوں سے الگ الگ خطاب کرتے ہوئے کیا جن میں پارٹی کی تنظیم سازی پر بھی تفصیل سے غور کیا گیا۔ پرویزالٰہی نے کہا کہ ق لیگ کی تنظیم سازی کو ہمیں ترجیح دینا ہو گی اور یہ تنظیم سازی صوبائی اسمبلی کے حلقہ کو بنیاد بنا کر کی جائے گی، اس سلسلہ میں مونس الٰہی کی قیادت میں ایک کمیٹی پنجاب کے تمام اضلاع کا دورہ کرے گی جس کے بعد میں خود ہر ضلع میں جا کر میٹنگز کروں گا۔ انشاء اللہ اگلے چند دن میں تفصیلی پروگرام وضع کر لیا جائے گا۔ مسلم لیگی رہنمائوں نے اتوار کو لاہور میں جلسہ عام میں بھرپور شرکت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ مہنگائی، بیروزگاری، بجلی اور گیس کی قلت کے باوجود آسمان سے باتیں کرتے بلوں نے عوام کو حکمرانوں کی اصلیت سے آگاہ کر دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’گونواز، گوشہبازگو‘‘ کا نعرہ ہر ایک کا محبوب نعرہ بن چکا ہے۔ علاوہ ازیں ق لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم سینیٹر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ خاندانی سیاست کا خاتمہ کیا جائے اور اسکو ختم کرنے کیلئے خاندان کی تعریف واضح کی جائے کہ خاندان سے کیا مراد ہوتی ہے، دو بار سے زائد وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور مخصوص نشستوں پر آنے والی خواتین کے ایک سے زائد بار ممبر بننے پر پابندی ہونی چاہئے اور انہیں وزیراعظم، وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ کا حق نہیں ہونا چاہئے، دھرنوں نے اب جلسے جلوسوں کی شکل اختیار کر لی ہے، موجودہ حالات کے ذمہ دار وزیراعظم نوازشریف ہیں، ان کیلئے ایک موقع تھا وہ وزیراعلیٰ پنجاب کو بھائی نہ سمجھتے سانحہ ماڈل ٹائون میں ان کے خلاف انکوائری کرواتے اور استعفیٰ لے لیتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ وہ اپنی رہائشگاہ پر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ شجاعت حسین نے کہا کہ نریندر مودی کے وزیراعظم بننے پر جب سب نے اسے مبارکباد دینے کیلئے کہا تو میں نے کہا تھا کہ مودی کا موڈ دیکھ کر بات کروں گا، موڈ تو آپ سب نے دیکھ لیا ہے، گالیاں نکالنے کیلئے تو ہم نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا، بھارت کی اس جارحیت پر کم از کم ایک دن کا ہی اجلاس بلا لیتے، ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اب بھی بلا لیں، مشترکہ اجلاس بلانے کیلئے ہم سینٹ میں جائیں گے، فوج کس کا ساتھ دیتی ہے اور کس کا نہیں، ہمیں اس معاملے میں نہیں پڑنا چاہئے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں تین سال بعد عام انتخابات ہوتے ہیں، ہمیں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے، 5 سال میں لوگ تنگ پڑ جاتے ہیں۔ الیکشن اصلاحات میں اپنی تجاویز دیں گے، باری والا سلسلہ اب ختم ہونا چاہئے، میں حکومت کروں پھر میرا بھائی بیٹا حکومت کرے، ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ جب حکومت کی جانب سے فوج کو کہا گیا کہ وہ سہولت کار کا کردار ادا کریں، انہوں نے ایسا کر دیا لیکن جب وزیراعظم پر پارلیمنٹ کا پریشر آیا کہ آپ نے ایسا کیسے کہہ دیا تو نوازشریف اسمبلی کے فلور پر اپنی بات سے مُکر گئے، نوازشریف کو فوج کی وضاحت سے پہلے پارلیمنٹ میں کہنا چاہئے تھا کہ میں نے ایسا کیا ہے اور میں اپنی بات پر قائم ہوں۔