جاوید ہاشمی کی جیت یاہار۔۔۔کیا رنگ لائے گی؟
سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کی نظریں ملتان کے ضمنی الیکشن پر ہیں۔ جاوید ہاشمی آج میدان ماریں گے یا ہاریں گے۔ انکے مدِمقابل انکی طرح آزاد امیدوار عامر ڈوگر اور دوسرے پیپلز پارٹی کے جاوید صدیقی ہیں۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق کانٹے کا مقابلہ ہو گا۔ کچھ کو یکطرفہ الیکشن نظر آ رہا ہے۔ کہیں جاوید ہاشمی کے یکطرفہ جیت کو ثابت کیا جا رہا ہے اور کہیں انکی ضمانت ضبط ہونے تک کی بحث بھی ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ملتان میں جلسے سے قبل تک جاوید ہاشمی کیلئے سب ٹھیک لگ رہا تھا۔ جلسے کے بعد جاوید ہاشمی اور انکے حامی سراسیمہ ہیں۔ پنجاب حکومت نے تو الیکشن کمیشن سے امن و امان کا جواز پیش کرکے انتخاب ملتوی کرنے کی درخواست بھی کی۔
جاوید ہاشمی ،عمران خان سے اختلاف کے بعدکنٹینر سے اترے یا ان کو اتارا گیا،انہوں نے تحریکِ انصاف کی ٹکٹ پر جیتی سیٹ سے استعفیٰ دیدیا جبکہ پی ٹی آئی کی صدارت نہ چھوڑی۔ کہتے رہے کہ وہ آئینی طور پر تحریک انصاف کے صدر ہیں کوئی ان کو اس عہدے ہٹا نہیں سکتا۔ کچھ آوازیں اٹھیں کہ یہ تحریک انصاف کا کیسا صدر ہے جو آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہا ہے تو ہاشمی صاحب نے پی ٹی آئی کی صدارت سے بھی استعفیٰ دے دیا۔ عمران خان نے جاوید ہاشمی کے کنٹینر سے اترنے پر کہا تھا کہ ’’آج سے میرے ہاشمی صاحب سے راستے الگ ہو گئے ہیں‘‘ اسکے جواب میں جاوید ہاشمی نے عمران خان کیخلاف بہت کچھ کہا اور اب بھی کہہ رہے ہیں۔ ہاشمی صاحب اعتراف کرتے ہیں کہ عمران نے ان کو بہت عزت دی۔ بعض لوگوں کو زیادہ عزت بھی ہضم نہیں ہوتی۔ مسلم لیگ ن والے کنٹینر سے اترنے سے قبل تک جاوید ہاشمی کے بارے میں یہی کہتے تھے۔ جاوید ہاشمی کنٹینر سے اتر کر خاموشی سے ملتان چلے جاتے اور اسمبلی سے استعفے کے بعد الیکشن لڑتے تو ان کو چیلنج کرنا ممکن نہ ہوتا۔ انہوں نے عمران خان، شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید کو آگے لگا لیا۔ عمران خان نے بڑے پن کا مظاہرہ کیا کہ جاوید ہاشمی کے الزامات کا جواب نہیں دیا۔ شاہ محمود قریشی اور شیخ رشید جواب آں غزل کا حق استعمال کر رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں جلسہ کرا کے کئی لوگوں کو اندازے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا۔ جاوید ہاشمی نے یہ کہہ کر شیخ رشید کو اشتعال دلانے کی کوشش کی کہ وہ شیخ، نہیں بٹ ہے۔وہ ملتان آئے تو ن لیگ کے کارکنوں نے انکے ہوٹل کا گھیرائو کرکے نعرے لگائے۔ جواب میں پی ٹی آئی کے کارکن بھی آ دھمکے۔ نعرے بازی، شورشرابے میں جس کا پلڑا بھاری رہا، الیکشن میں کامیاب ہوتابھی اسی کا حمایت یافتہ امیدوارنظر آرہا ہے۔ ضمنی الیکشن میں نواز لیگ کا امیدوار ہے نہ تحریک انصاف کا مگر مقابلہ انہی دو پارٹیوں کے مابین ہے۔اندر یا باہر سے مک مکا نہ ہواتو پیپلز پارٹی کے امیدوار کا ہار اور جیت کے مارجن میں اہم کردار ہو گا۔
ہاشمی صاحب کے بار بار رگیدنے پر شیخ رشید نے کہا تھا کہ جب جاوید ہاشمی جنرل ضیاء کی کابینہ میں حلف لینے گئے تو واسکٹ میری پہن کے گئے تھے ۔ یہ شیخ صاحب کی ایسی ہی ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ کا اظہار ہے جیساجاوید ہاشمی نے تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد بار بار پریس کانفرنسیں کرکے کیا۔ جاوید ہاشمی خود کو بڑے فخر سے باغی کہلاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے راز فاش کرنے پر انکے ماتھے پر داغی کا تمغہ بھی سج گیا۔ ان کو تحریک انصاف کا ساتھ، حکومت کیخلاف تحریک کے عین عروج پر چھوڑنے سے مسلم لیگ ن سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ تو مل گیا، لیکن تحریک انصاف والے غداری کے طعنے بھی دے رہے ہیں۔ جاوید ہاشمی مروجہ سیاست میں بڑے آدمی ہیں لیکن انہوں نے ایک پارٹی کے صدر ہونے کی حیثیت سے راز کو راز نہ رکھ کر چھوٹی سوچ کا اظہار کیا البتہ اگر وہ جاسوسی کیلئے تحریک انصاف میں بھیجے گئے تھے تو انہوں نے حق ادا کر دیا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مسلم لیگ ن نے ان کا جس طرح والہانہ استقبال کیا اور ضمنی الیکشن میں حمایت کی‘ اس سے انکی مسلم لیگ ن کیلئے وفاداری مبہم نہیں رہتی ۔
کچھ حلقوں کی رائے ہے کہ ضمنی الیکشن جاوید ہاشمی کی مستقبل کی سیاست کا فیصلہ کر دیگا۔ وہ جیت گئے تو ان کو سرخاب کے پَر نہیں لگ جائینگے ‘ہارے توانکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔وہ اگلے الیکشن میں جیت کی امید لئے سیاست کے اسی کوچہ و بازار میں گھومتے نظر آئینگے کیونکہ ٹارزن نے آئین اور جمہوریت کوبچاناہے۔
دو تین روز قبل شیخ رشید لاہور میں وقت نیوز کے دفتر آئے۔ سلیم بخاری صاحب کے پاس تشریف فرما تھے۔ ان سے سوال کیا کہ جناب اپنی خواہش کی بنیاد پر نہیں طویل سیاسی تجربے اور ملتان میں جلسے اور شواہد کی بنا پر بتائیے جاوید ہاشمی جیتیں گے یا ہاریں گے‘‘ شیخ صاحب کا جواب تھا شیخ جاوید صدیقی بیٹھ گئے توکم مارجن، کھڑے رہے تو بڑے مارجن سے…ہاریں گے/ جیتیںگے۔ )خالی جگہ پر کر لیں(
جاوید ہاشمی کی عمران خان کیخلاف کنٹینر سے اترنے کے بعد دھواں دارپُر انکشاف پریس کانفرنس اور جائنٹ سیشن میں میاں نواز شریف کی موسلا دھار حمایت سے لگتا تھا کہ حکومت کو لاحق خطرات ٹل گئے ہیں لیکن آصف زرداری کادھرنوں اور عمران خان کے جلسوں پر آگ بگولا ہونا کسی نادیدہ خطرے کی چغلی کھاتا ہے ۔ وہ کبھی عمران خان کو پانی کا بلبلا کبھی نابالغ ،کبھی ان کو سیاست میں انتشار کا سبب قرار دیا ہے۔اب کہا ہے62 سال کا بوڑھا خود کو جوانوں کا لیڈر کہتا ہے۔ ایسی گولہ باری زرداری کی طرف سے کسی پر کبھی یکطرفہ نہیں کی گئی۔وہ نواز لیگ اور اپنی پارٹی کے اقتدار کو لاحق خطرات کو بھانپ گئے ہیں یا انکی ذہنی کیفیت وہی ہوگئی ہے جس کا انہوں نے کبھی سوئس عدالتوں میں میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کیا تھا؟ اگر پہلی بات درست ہے توجو کچھ ہونیوالا ہے تو وہ مروجہ جمہوریت کے قدردانوں، مہربانوں اور نگہبانوں کی امیدوں اور خواہشوں کیمطابق نہیں ہے۔ ہمارے محترم سیاستدان ہی ہمیں درس دیتے ہیں کہ انتخاب ہی بہترین احتساب ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے اگر انتخاب شفاف بھی ہو تو۔ اگر 2013ء کے انتخابات شفاف تھے تو گنتی کی اپیلوں پر ڈیڑھ سال سٹے کیوں لئے گئے؟ سیاستدانوں کا جائزہ لیں یقیناً پارسا اور نیک بھی ہیںتاہم اکثرمیں گلو بٹ کا عکس نمایاں ہے۔دوسرے لفظوں میں گلو ہمارے اکثر سیاستدانوں کا دوسرا روپ ہے۔ گلو بٹ نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ’’ میں امن کا سفیر ہوں لہذا مجھے گلو کریسی کے بجائے قوم کے سپاہی کے نام سے پکارا جائے۔جو کچھ سانحہ لاہور میں ہوا اس پر پوری قوم سے معافی مانگتا ہوں ۔جو کچھ لاہور میں ہوا وہ کرنے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا، میں تو وہاں 2 فریقین کے درمیان صلح کرانے گیا تھا تاہم میڈیا نے وہ سب کچھ نہیں دکھایا۔‘‘
بڑے بہت بڑے سیاستدان کو گلو کے بیان کی کسوٹی پر پرکھیں۔ سینما میں ٹکٹیں بلیک میں فروخت کرنے، ٹانگ سے بم باندھ کررقم نکلوانے، اثاثے چھپانے، ٹیکس چرانے، موٹرویز اور میٹروز سے اقربا کو نوازنے، فوجی آمروں سے خِلعت فاخرہ پانے اور قوم و ملک کو اربوں کھربوں روپے کے ٹیکے لگانے والے خود کو مدبر ،عقل کل سمجھتے اور قوم وملک کے خیر خواہ ظاہرکرتے ہیں۔ملتان الیکشن لڑنیوالے اسی سسٹم کا کل پُرزہ ہیں۔ہارے تو یہ اس سسٹم کی ہار ہو گی جس کو مافیا سیاستدانوں نے کرپٹ کر دیا ہے۔ اگر جیتے تو پھر سمجھ لیں کہ خدا کو اس قوم کی قسمت بدلنا مقصود نہیں جو خود اپنی قسمت بدلنا نہیں چاہتی۔