’’ شہیدوں‘‘ پر سیاست!!
ویسے تو شہادت کی کئی قسمیں ہیں مگر شہادت عظمی اللہ کی راہ میں جان دینا ہے جس کے بارے میں اللہ کریم فرماتا ہے ’’جو اللہ کی راہ میں مار ے جائیں انہیں مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں مگر تم شعور نہیں رکھتے‘‘ شہادت کا مقصد صرف اللہ تعالی کی محبت و رضا کا حصول ہوتا ہے۔ کربلائے معلیٰ میں حضرت امام حسینؓ نے ایسی تاریخ رقم کر دی ہے قیامت تک ایسی مثال نہیں ملے گی۔ بلاشبہ فرقہ پرستی کی لعنت نے ہمیں پارہ پارہ کر دیا ہے۔ آج ہر کوئی اپنی اپنی الگ ’’شریعت‘‘ کا دعویدار ہے۔ لہو لگا کر شہیدوں کی صف میں شامل ہونے والے بھی بیشمار ہیں۔ بدقسمتی سے ’’شہادت‘‘ کا ’’اعزاز‘‘ دینا یا نہ دینا بھی آج کل ہمارے سیاستدانوں کی ملکیت دکھائی دیتا ہے۔ حکیم اللہ محسود ڈرون حملے میں مارا گیا۔ ہم نے اپنے ایک کالم میں اس کی موت کو جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مصداق مکافات عمل قرار دیا مگر جماعت اسلامی کے منور حسن نے اسے ’’شہید‘‘ قرار دیا۔ ’’مولانا‘‘ فضل الرحمن نے یہاں تک کہہ دیا کہ امریکہ کی طرف سے اگر کتا بھی مارا جائے وہ بھی ’’شہید‘‘ ہے۔ لفظ شہید کی توہین کے مرتکب ’’مولانا‘‘ کی علمیت، دینداری، پاسداری خود بخود واضح ہو گئی۔ ایک طرف سے امریکہ سے اس حد تک نفرت دوسری طرف ’’مولانا‘‘ امریکیوں سے وزارت عظمی کی بھیک بھی مانگتے رہے ہیں بہرحال پیپلز پارٹی والے بھی PPP کو ’’شہیدوں‘‘ کی پارٹی گردانتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی حکم سے پھانسی دی گئی۔ فیصلہ درست تھا یا غلط یہ تو عدالتیں ہی جانتی ہیں اگر فیصلہ غلط تھا تو عدالتی نظام کے خلاف ایک سوالیہ نشان ہے؟ بہرحال پیپلز پارٹی والے عوامی مسئلہ ایک بھی حل نہ کریں قومی خزانے کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لوٹ کر چلے جاتے ہیں اداروں کی بربادی ان کی حکومت میں ہوتی ہے کرپشن ان کے عہد میں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہے مگر بھٹو کی ’’شہادت‘‘ کو وہ ہر لمحہ کیش کراتے ہیں کام بے شک ایک بھی PPP سے اچھا نہ ہو بس ذوالفقار علی بھٹو کی ’’شہادت‘‘ ہی کافی ہے۔ پھر محترمہ کو کراچی آمد پر مار دیا گیا۔ سینکڑوں جانیں اور بھی ضائع ہوئیں۔ محترمہ بے قصور لقمہ اجل بنیں اب اس کا ذمہ دار کون؟ آصف زرداری نے کئی بار کہا کہ بی بی صاحبہ کے قاتلوں کا مجھے علم ہے بھئی اگر علم ہے تو پانچ سال اقتدار میں رہ کر بھی ان کو پکڑا کیوں نہیں؟ گو کہ سابق زرداری نے اس وقت اقوام متحدہ کی ٹیم سے ایک رپورٹ لے لی تھی جس میں جلی حروف میں لکھا تھا کہ ’’محترمہ کی شہادت سے صدر زرداری اور ان کے خاندان کا تعلق نہیں ہے‘‘ محترمہ کی شہادت سے فائدہ کس کو ہوا؟ بہرحال پیپلز پارٹی کو سیاسی جلسوں میں کیش کرانے کے لئے ایک اور شہید محترمہ کی صورت میں مل گیا ہے۔ محترمہ کے بھائی بھی قتل ہوئے مگر مرتضی بھٹو کے سارے نامزد ملزم زرداری صاحب کے عہد صدارت میں ’’باعزت‘‘ بری ہوگئے۔ اب بلاول بھٹو نے نواز شریف کو طعنہ دیا ہے کہ تم نے ’’جمہوریت‘‘ کے لئے ایک بلی کا بچہ بھی قربان نہیں کیا۔ ن لیگ والے شاہد فرماتے ہیں۔ حالانکہ ان کے لیڈر ضیاء الحق بھی طیارہ حادثہ میں مارے گئے وہ بھی اپنے قائد ضیاء کی ’’شہادت‘‘ کے راگ الاپ سکتے ہیں۔ مگر شاید اب ن لیگ ’’جمہوری‘‘ بن گئے ہیں اب شہید ہونے کی بجائے شہید کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بے خوف و خطر سانحہ ماڈل ٹائون میں کئی بے گناہ افراد کو مار دیا گیا۔ کسی کو ذرا احساس تک نہیں ہوا۔ دوسری طرف ان بے گناہوں کی موت نے طاہر القادری کو ’’سیاست‘‘ کرنے کا موقع فراہم کر دیا اب موصوف ان کی لاشوں پر’’سیاست‘‘ کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ مارنے والے بھی ’’قانونی‘‘ جواز پیش کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف ’’بھنگڑوں‘‘ اور ’’گانے بجانے‘‘ کے کلچر کو نئے پاکستان کا عندیہ قرار دے رہے ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ عمران خان یہ پانچ سال کے پی کے میں سارے ’’خواب‘‘ پورے کرتے کہ اگلی دفعہ پورے ملک کے عوام ان کی طرف راغب دکھائی دیتے بہرحال وطن عزیز میں ’’شہیدوں‘‘ پر سیاست جس طرح فروغ پا رہی ہے یہ کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ ملکی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ بلاول بھٹو کا جلسوں میں حد درجہ چیخنا شہیدوں پر سیاست کرنا اور ہر دوسرے پر الزام تراشی کرنا PPP کا مستقبل بھی مایوس کن ہی دکھائی دیتا ہے عوام کے سینکڑوں مار دیئے جائیں ان کی کسی کو بھی پرواہ نہیں ہوتی۔