توہین رسالت کیس، ہائیکورٹ نے آسیبہ بی بی کی سزائے موت برقرار رکھی، اپیل خارج
لاہور (اپنے نامہ نگار سے + نیٹ نیوز + بی بی سی + اے ایف پی) لاہور ہائیکورٹ نے توہین رسالت کے مقدمہ میں ملوث مجرمہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کیخلاف دائر اپیل خارج کردی اور اس کی سزا برقرار رکھی ہے۔ آسیہ بی بی کو چار برس قبل ضلع ننکانہ کی عدالت نے موت کی سزا سنائی تھی۔ جسٹس مولوی انوارالحق اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل لاہور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے اپیل پر اپنے فیصلے میں مقامی عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کو برقرار رکھا۔ ملزمہ کے وکیل شاکر چودھری کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کریں گے۔ فیصلے کے وقت مقدمے کے مدعی قاری محمد سلیم اور ان کے ساتھی عدالت میں موجود تھے، انہوں نے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا اور نعرے بازی کی۔ پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی نے ہائی کورٹ میں اپنی اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ مقامی عدالت نے توہین رسالت کے جرم میں سزا سناتے وقت حقائق کو نظر انداز کیا، بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے انہیں سزا سنا دی تھی جو قانون کی نظر میں قابل پذیرائی نہیں ہے۔ آسیہ کے خلاف جون 2009 میں توہین رسالت کے الزام میں درج مقدمے میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس نے اپنے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بحث کے دوران توہین آمیز کلمات ادا کئے۔ ملزمہ نے اپنے خلاف مقدمہ کی سماعت کے دوران یہ بیان دیا تھا کہ ان پر اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا اور انکار کرنے پر یہ مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ سماعت کے موقع پر آسیہ بی بی کے وکیل نے عدالت سے سزائے موت ختم کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ٹرائل عدالت نے ناکافی گواہوں اور ثبوتوں کے باوجود آسیہ بی بی کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ تھانہ ننکانہ صاحب پولیس نے توہین رسالت کرنے پر آسیہ بی بی کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کیا۔ ٹرائل عدالت نے تمام گواہوں اور ثبوتوں کی موجودگی میں اسے سزائے موت کا حکم سنایا۔ عدالت نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خلاف اپیل مسترد کر دی۔ بی بی سی کے مطابق سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد ان سے ملاقات بھی کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی کو بے گناہ قرار دیا اور تجویز دی تھی کہ توہین رسالت کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔ آسیہ بی بی سے ملاقات کے کچھ عرصے بعد ہی سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ نے اسلام آباد میں فائرنگ کر کے قتل کردیا تھا اور اپنے اس اقدام کی وجہ سلمان تاثیر کے توہینِ رسالت کے قانون کے بارے میں بیان کو قرار دیا تھا۔مقدمہ نمبر 326/09، 19 جون 2009ء کو زیر دفعہ 295-C تعزیرات پاکستان تھانہ صدر، ضلع ننکانہ صاحب میں آسیہ بی بی کے خلاف درج رجسٹرڈ ہوا تھا۔ ایف آئی آر کے مطابق آسیہ بی بی نے نبی کریمؐ کی شان اقدس میں نازیبا الفاظ استعمال کئے تھے۔ سیشن کورٹ ننکانہ صاحب نے آسیہ بی بی کو سزائے موت کا حکم دیا تھا جس پر آسیہ بی بی نے سزا کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ آسیہ کے وکلا ایس کے چودھری، شاکر اللہ سمیت چار وکلاء نے مؤقف اختیار کیا کہ آسیہ کو مقدمہ میں غلط طور پر ملوث کیا گیا۔ ایڈیشنل سیشن جج نے سزا غلط طور پر دی۔ اپیل منظور کرتے ہوئے ملزمہ کو بری کیا جائے۔ استغاثہ کی جانب سے ختم نبوت لائیرز فورم کے وکلاء خواجہ ابرار مجال، غلام مصطفٰی چودھری، طاہر سلطان کھوکھر، طاہرہ شاہین مغل، مقبول احمد چودھری، عامر سبحانی، غلام مجتبٰی چودھری، چودھری ساگر علی ڈھلوں، محمد مدثر چودھری، امین عاصم جوئیہ اور دیگر نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ استغاثہ کے گواہوں نے کیس کو مکمل طور پر ثابت کیا ہے۔ اس جرم میں سزا صرف اور صرف موت ہے اور ایڈیشنل سیشن جج کا فیصلہ قانون کے مطابق درست ہے۔