• news

حج اور دیار حبیبؐ سے لوٹنے والوں کی زیارت کی فضیلت

علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
 اسلام دین فطر ت اور خیر خواہی کا علمبر دار ہے یہ اپنے ماننے والو ں کے علا وہ نسلِ انسا نی کی فلا ح و بہبود ، فوائد ونفع رسانی کا بھی پورا پورا خیال کرتا ہے۔ ارکان ِ اسلام کو ہی لیجئے !کلمہ ، نماز ، روزہ ،حج اور زکوٰۃ جہاں عبادت الہٰی اور اطاعت رسول ہیں وہاں انسانی فکر و عمل کی پاکیزگی اور اجتماعی فوائد کے حصول کا ذریعہ بھی ہیں ۔کلمہ طیبہ کے پڑھنے سے جب ایک انسان مسلمان ہوتا ہے تو اس پر کچھ حدود و قیود کا بھی نفاذ ہو جاتا ہے ۔اب وہ اپنے سابقہ گناہوں سے پاک ہو کر سلامتی وخیر کے حصار میں آگیا ۔اس حصار میں خود اپنے تائیں محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ اس پر فرض عاید ہوجاتا ہے کہ  اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کو بھی اپنے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے ۔نماز جہاں عبادت خدا کا عظیم مظاہرہ ہے وہیں یہ  اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کی ہمدردی ، غمگساری ،معاشرتی و معاشی خبر گیری ،تہذیبی و تمدنی اثرات اور اخلاقی و روحانی طرز زندگی کا بھی عظیم موقع فراہم کرتی ہے ۔اسی طرح روزہ فکرِ معاش سے بے نیازی اور اطاعت ربانی کا سلیقہ سکھاتا ہے ۔زکوٰۃ محبتِ مال سے بے نیاز کرتے ہوئے اپنے غریب مسلمان بھائیوں کی مدد کا اسلوب سکھاتی ہے اور حج جہاں عبادتِ مالی ہے وہاں عبادت بدنی بھی ہے ۔اس میں اجتماعیت کا فروغ اور نسلی و لسانی تفاخر کا خاتمہ بھی ہے ۔امیری و غریبی کا فرق ختم کرنے والا اسلام کا یہ رکن اپنے اندر بڑی خوبیاں رکھتا ہے ۔حج جہاں ادائیگی کرنے والے کے لئے سامانِ بخشش ورحمت ہے وہاں فریضۂ حج کی ادائیگی کرنے والے’’حاجی‘‘  بھی اپنی زیارت کرنے والوں اور دعائیں لینے والوں کے لئے  عظیم خوش خبری کا ذریعہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان معاشرے میں ان  رسم و رواج کو   عزیز و اقارب یا پڑوسیوں میں  میل جول کی سعادت  حاصل کرنے کا اہم  موقع بھی کہا جا تا ہے جب دربار رسالتؐ اور  بارگاہ ربُ العزت میں دعا کرنے کے لئے التجا کی جاتی ہے۔   حج کر لینے کے بعد  ایک انسان  اس طرح گناہوں سے پاک ہو کر لوٹتا ہے گویا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔ یعنی اُس کے سابقہ سارے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ نبی کریمؐ نے  حضرت بلال  ؓکو مزدلفہ کی صبح ارشاد فرمایا:’’اے بلالؓ لوگوں کو خاموش کرائو۔پھر ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ تمہارے اس اجتماع پر فخر فرماتا ہے اور اس نے تمہارے گناہ گاروں کو نیکوں کے سبب بخش دیا ہے اور تمہارے نیکوں نے جو مانگا اُنہیں عطا کر دیا ہے اب اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اپنے گھروں کو لوٹ جائو۔‘‘(ابن ماجہ)
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول رحمت ؐ نے فرمایا جب تم حاجی سے ملو تو اسے سلام کرو اور اس سے مصافحہ کرو اور اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اپنے لئے دعائے مغفر ت کرائو کیونکہ وہ بخشا ہوا لوٹا ہے ۔(مشکوٰۃ)حاجی جب حج کر کے واپس گھر لوٹ کر آتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں سے مالا مال ہوتا ہے وہ بارگاہ رب العزت سے مقرب و مقبول بندہ بن کر لوٹتا ہے ۔اس کی دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے ۔
اس لئے اس سے ملاقات کرنا اور اس سے دعا کروانا باعثِ سعادت ہوتا ہے ۔ حضرت محمد مصطفیٰ ؐ  کا فرمان ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ ہیں :’’ کہ جس وقت تو کسی حاجی سے ملے اس کو سلام و مصافحہ کر اورا س کو اپنی مغفرت کا کہہ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہو اس لئے کہ اُس یعنی حج سے واپس آنے والے کو بخش دیا گیا ہے ۔(مسند احمد)
حاجی کو اس کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے ملنا اور سلام میں سبقت لے جانا بلکہ ساتھ مصافحہ بھی کرنا چاہئے کیونکہ مصافحہ سنت رسول ؐ  بھی ہے اور اچھے تعلقات کا مظہر بھی ۔ملاقات کے بعد حاجی سے دعا کی التجا کی جائے کیونکہ اس وقت کی دعا قبول ہوتی ہے ۔اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی اخذ ہوا کہ جب اللہ کے خاص نیک بندے یعنی اہل  روحانیت ،صالحین ،فقیر و درویش لوگ حج سے واپس تشریف لائیں تو ان سے ملاقات و زیارت کے لئے ضرور حاضری دینا چاہئیے ۔دعا تو اللہ تعالیٰ ہی سے کی جاتی ہے مگر انداز دعا بھی قبولیت دعا میں بڑا اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ ایک نیک سیرت ،صاحبِ تقویٰ بزرگ غلاف کعبہ کو پکڑے حج کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کررہا تھا ۔
’’الہٰی !اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور کلمہ حج میں دو حرف ہیں ح اور ج ، الہٰی! ح سے تیرا حکم اور ج سے میرے جرم مراد ہیں تو اپنے حکم سے میرے جرم معاف فرمادے ۔‘‘ آواز آئی!’’اے میرے بندے تو نے کتنی عمدہ مناجات کیں،پھر کہو۔‘‘
وہ بندۂ خدا دوبارہ نئے انداز سے یوں پکارتا ہے:’’اے میرے بخشنہار ،اے غفار! تیری مغفرت کا دریا گنہگاروں کی مغفرت وبخشش کے لئے جوش زن ہے اور تیری رحمت کا خزانہ ہر سوالی کے لئے کھلا ہے ،الہٰی ! اس گھر کی زیارت کو حج کہتے ہیں اور حج دو حرف پر مشتمل ہے ح اور ج ،ح سے اگر میری حاجت اور ج سے تیرا جود مراد ہے تو توُ اپنے جود  و کرم سے اس مسکین کی حاجت پوری فرمادے۔‘‘ آواز آئی!’’اے جوانمرد تو نے کیا خوب حمد کی ،پھر کہو۔‘‘
وہ پھر عرض کرنے لگا:’’اے خالق کائنات !تیری ذات ہر عیب و نقص سے اورکمزوری سے پاک ہے تو نے اپنی عافیت کا پردہ مسلمانوں پر ڈال رکھا ہے ،میرے مولا! حج یعنی ح اور ج سے اگر میری حلاوت ایمانی اور ج سے تیری جلالت جہانگیری مراد ہو تو تواس ناتواں کے ایمان کی حلاو ت کو شیطان کی گھات سے محفوظ رکھنا۔‘‘ آواز آئی:میرے مخلص بندے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں    راہ دکھلائیں کسے کوئی راہرو منزل ہی نہیں
حضرت شیخ یحییٰ قدس سرہٗ جب حج سے فارغ ہوئے تو واپسی پر خانہ کعبہ کے دروازے پر آکر یوُں التجا کرنے لگے۔
’’الہٰی دنیاوی بادشاہوں کا معمول و دستور ہے کہ وہ اپنے خدام کو بوقتِ رخصت خدمت کے صلہ میں بیش قیمت تحائف سے  نوازتے ہیں۔خدایا !میں تیرا بندہ اور تو میرا  ایسا بادشاہ ہے کہ ہر ایک کو بادشاہی تیری ہی عطا کردہ ہے  ۔میں  تیرے حرمت والے گھر کی جاروب کشی اور خدمت سے مشرف ہوا ہوں ،اب میری واپسی ہے اور کچھ تحائف و تبرکات تیرے آستانہ فیض سے لے جانے کا طالب ہوں۔‘‘  آواز آئی:’’میرے بندے تو اپنے متعلقین کے لئے کیا تحفے طلب کرتا ہے ۔؟‘‘
عرض کیا:الہٰی!میں تجھ سے اپنے رفقاء متعلقین کے لئے رحمت اور مغفرت کے تحفے مانگتا ہوں  کہ جب اپنے وطن پہنچوں تو خویش و اقارب کے  سے مجھے شرمساری نہ ہو۔  ندا آئی:’’میرے بندے جائو ہم نے تجھے تمہاری طلب سے بھی زیادہ عطا فرمایا، جب توُ اپنے عزیزوں سے ملے تو میری مغفرت و رحمت کی انہیں بشارت سنا دینا  کہ میں نے تجھے اپنے جود و کرم کے بے پایاں دریا سے ایمانداروں کے لئے شفاعت و مغفرت کے تحفے عطا کر دئیے ہیں ۔‘‘

ای پیپر-دی نیشن