• news

بحریہ ٹائون میں مسجد کا افتتاح اور ’’صدر‘‘ زرداری

بحریہ ٹائون کی مسجد کا افتتاح کرتے ہوئے ملک ریاض اور صدر زرداری کی تصویر سب اخبارات میں چھپی ہے۔ موقع اچھا تھا۔ لگے ہاتھوں دونوں مشہور حضرات کوئی ایک نماز بھی اس مسجد میں پڑھ لیتے اور وہ تصویر بھی اخبارات میں شائع ہو جاتی تو بڑا مزا آتا اور دونوں اصحاب کو ثواب ہوتا۔ نماز پڑھنے کا کم اور تصویر چھپوانے کا زیادہ۔ نیکی کی تشہیر بھی نیکی ہے۔ لگتا ہے کہ عیدین کی نماز جمعے کی نماز اور دوسری نمازوں سے اس لحاظ سے بڑھ کر ہے کہ سارے حکمرانوں کی تصویریں چھپتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ ایک نماز تو حکمران پڑھتے ہیں۔ انہیں نماز آتی ہو یا نہ آتی ہو۔ ’’صدر‘‘ زرداری اور حکومت میں ان کے لاڈلے وزیر رحمان ملک کو سورہ اخلاص بھی نہ آتی تھی۔ اکثر لوگ ہر نماز میں سورہ اخلاص پڑھتے ہیں۔ رحمان ملک آج کل امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے ساتھ دھرنے والوں اور حکومت کرنے والوں میں صلح کرا رہے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ان کی کریڈیبلٹی اور کریڈٹ کیا ہے کہ سب لوگ ان کی قیادت میں جرگہ چلا رہے ہیں۔
عید کی نماز تو واجب ہے۔ ہم فرائض کی نسبت واجبات کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ واجبات پیسے کے لین دین میں بھی ہوتے ہیں۔ مذکورہ تصویر کے لئے نوائے وقت کے مشہور فکاہیہ کالم سرراہے میں بہت خوب بات لکھی گئی ہے۔ بڑے بڑے لوگ اور بالخصوص مرشد و محبوب مجید نظامی بھی ’’سرراہے‘‘ لکھتے رہے ہیں۔ ’’یہ تصویر اپنی ذات میں خود ہی ایک فکاہیہ کالم نظر آتی ہے۔ خود ہی ’’سرراہے‘‘ ہے۔ آخر میں لکھا گیا ہے کہ ’’بحریہ ٹائون کی مسجد ایک عالیشان شہکار ہے۔ اس کا افتتاح کسی جینوئن روحانی پیشوا سے کرایا جاتا تو اس میں ملک ریاض کا اخلاص بھی ٹپکتا نظر آتا جبکہ زرداری صاحب سے اس کا افتتاح کرانا اپنی سیاسی اور معاشی عاقبت سنوارنے کے مترادف ہے۔‘‘
ملک ریاض بہت سیانے آدمی ہیں۔ انہوں نے معمولی حیثیت سے بہت بڑی مالدار شخصیت بنا لی ہے۔ اور یہ ایک کریڈٹ ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ ایک ہو جاتے ہیں۔ وہ چاہیں تو بحریہ ٹائون کے علاوہ فضائیہ ٹائون اور پورے کا پورا آرمی ٹائون بنا سکتے ہیں۔ کئی جرنیل فضائیہ اور بحریہ کے فوجی افسران ریٹائر ہو کے ان کے ملازم ہونا پسند کرتے ہیں۔ کئی سیاسی شخصیات بھی اس اعزاز میں شامل ہوتی ہیں۔ پچھلی حکومت میں انہوں نے چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری کو بھی کمپرومائز کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ فلاحی کام بھی کرتے ہیں۔ فلاحی کام کے پیچھے نیت جیسی بھی ہو یہ اچھی ہے کیونکہ اس سے بہرحال خلق خدا کا بھلا ہوتا ہے۔ سیلاب زدگان زلزلہ زدگان کے لئے ان کی طرف سے امداد کی فراوانی ایک حیرانی ضرور پیدا کرتی ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس مال دولت کے انبار ہیں مگر وہ ایک روپیہ اچھے کاموں پر خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انہوں نے دسترخوانوں کے نام سے غریبوں کے لئے مزیدار اور اچھے کھانے کا بندوبست کیا ہے۔ کھانے کے لئے آنے والوں سے نہیں پوچھا جاتا کہ تم غریب ہو یا نہیں۔ میرے آقا و مولا محسن انسانیت رحمت اللعالمین رسول کریم حضرت محمدؐ نے فرمایا کہ جو شخص سوال کر دے اس کو ضرور کچھ دو۔ یہ پوچھنا ٹھیک نہیں ہے کہ وہ مستحق ہے یا مستحق نہیں ہے۔ میں نے خود ایک بار اس دسترخوان سے کھانا کھایا ہے۔
انصار برنی نے جب بحری جہاز کے یرغمالیوں کے لئے شور مچایا تو ملک ریاض نے اربوں روپے دوبارہ دے دیے ایک بار ’’صدر‘‘ زرداری کی ہدایت پر دیے تھے۔ انہوں نے یہ معلوم نہیں کرایا کہ اس میں انصار برنی نے اپنا کتنا حصہ وصول کیا۔ بحری جہاز پر دوسرے ملکوں کے یرغمالی بھی تھے؟ حکومتی فنڈز میں فنڈز وصول کرنے والوں کا حصہ زیادہ ہوتا ہے۔ مستحق لوگوں تک معمولی حصہ پہنچتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے ملک ریاض کا دل بہت بڑا ہے تو اس طرح فوائد بھی بہت ملک صاحب نے حاصل کئے ہونگے۔ یہ تو فطری امر ہے۔ اس ہاتھ لو اس ہاتھ دو۔
اس کے باوجود یہ بات قابل ذکر ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کے ایوان صدر سے آنے کے بعد بھی وہ ان کے ساتھ دوستی نبھا رہے ہیں۔ میں تو ہمیشہ آج بھی انہیں ’’صدر‘‘ زرداری لکھتا ہوں۔ ایسے لوگ ریٹائر ہو کر بھی ریٹائر نہیں ہوتے۔ کہتے ہیں مرا ہوا ہاتھی زیادہ بیش بہا ہوتا ہے۔ ابھی تک ’’صدر‘‘ زرداری کی سیاست وہی ہے بلکہ وہی کی وہی ہے جو ایوان صدر میں تھی۔ لاہور کا بلاول ہائوس ایوان صدر سے بڑھ کر ہے۔ اور یہ ملک ریاض نے بنا کے دیا ہے۔ اب پشاور والا بلاول ہائوس بھی ملک ریاض بنا کے دیں گے۔ پھر کوئٹہ پھر اسلام آباد اور پھر کہیں اور بلاول ہائوس بنیں گے۔ پھر بلاول وزیراعظم بنیں گے؟ اور تب وزیراعظم ہائوس بلاول ہائوس ہو جائے گا؟ یہ بھی ملک صاحب ان سے پوچھیں کہ اب لوگوں کے لئے ہسپتال بنائیں بلکہ ملک ریاض سے بنوائیں۔ ملک صاحب کو مسجد بنانے کا تو ثواب ملے گا اور ’’صدر‘‘ زرداری سے افتتاح کرانے کا ثواب بھی مل جائے گا۔ کیونکہ شاید ’’صدر‘‘ زرداری کسی دن مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے پہنچ جائیں تو اس کا بھی کچھ ثواب ملک صاحب کو ملے گا۔
’’صدر‘‘ زرداری کے ہوم ٹائون نواب شاہ میں کچھ پہلے سکول کے بچوں کی بس کا حادثہ ہوا تھا جس میں کئی بچے جاں بحق ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے۔ ’’صدر‘‘ کے آبائی شہر میں ہسپتال نہ ہونے کے برابر تھا۔ زخمی بچوں کو حیدر آباد لایا گیا۔ وہاں بھی مناسب اہتمام نہ تھا۔ بالآخر بچوں کو کراچی لایا گیا۔ اس دوران کئی زخمی بچے جاں بحق ہو گئے۔ ’’صدر‘‘ زرداری نے اپنے زمانے میں بھی نہ کوئی ہسپتال بنوایا۔ اپنے آبائی شہر میں بھی نہ بنوایا۔ نہ سکول بنوایا نہ سکولوں کی حالت زار بدلی۔ ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ اب بھی سندھ میں پیپلز پارٹی یعنی ’’صدر‘‘ زرداری کی حکومت ہے۔
صدر زرداری نے یہ بھی کہا کہ ہسپتال بنا لینے سے کوئی سیاستدان نہیں ہو جاتا۔ تو کیا مال بنانے سے کوئی سیاستدان ہوتا ہے۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ اب تک ہمارے ملک میں سارے سیاستدان مال بنانے میں آگے بڑھ جانے کے بعد سیاستدان بنتے ہیں۔ روپیہ پیسہ مال و منال اور جائیداد وغیرہ کے معاملے میں ہمارے سیاستدان بہت ماہر ہیں اور مخلص ہیں۔ سب کے سب اپنے اپنے ’’بلاول ہائوس‘‘ یعنی شاندار اور وسیع و عریض گھر رکھتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن