سرکاری ملازم کا تبادلہ اس کی نہیں‘ سرکار کی مرضی سے ہوتا ہے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے شولڈر پروموشن کیس فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں کی سماعت میں قرار دےا ہے کہ سرکاری ملازم کا تبادلہ ملازم کی نہیں بلکہ سرکارکی مرضی سے ہوتا ہے مگر معاملات میں شفافیت اور قواعد و ضوابط کا ضروری خےال رکھنا چاہئے جبکہ مزید سماعت 21اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ تین رکنی بینچ نے سماعت کی تو ایس ایچ او پیر منگو پیر کراچی غلام حسین نے پیش ہو کر بتایا کہ علاقے میں بدامنی کی صورتحال کوکنٹرول کرنے کیلئے مجرموں کے خلاف انکاﺅنٹر کئے گئے جن میں ایک واقعہ میں بھی زخمی ہوا تاہم بعدازاں ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں مجھے ترقی دے کر انسپکٹر بنا دیا گیا۔ عدالتی استفسار پر درخواست گذار کا کہنا تھا کہ 2004ءمیں ایک کنٹینر چھینا گیا جس میں دس کروڑ روپے کا سامان تھا میں نے وہ کنٹینر بازیاب کرایا۔ جسٹس اعجاز احمد چودھر ی نے کہا کہ یہ تو آپ کی ڈیوٹی ہے، کیا اس بات پر آپ کو پروموشن دی گئی۔ درخواست گذار نے مزید بتایا کہ ملیر جیل کے حالات خراب ہوئے اور آئی جی جیل خانہ جات سندھ نے مجھے وہاں بطور ڈی ایس پی تعینات کر دیا۔ بعدازاں سانگھڑ جیل میں بطور ایس پی تعینات کیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ملیر جیل کے حالات تو آج بھی خراب ہیں۔ درخواست گذار نے کہا کہ عدالتی فیصلہ آنے کے بعد مجھے دوبارہ ایس ایچ او منگھو پیر لگا دیا گیا، پہلے افسر رہ چکا ہوں۔ اب ایس ایچ او کی پوسٹ پر تعیناتی درست نہیں۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ڈی ایس پی پروموشن سیٹ ہے کیا جیل عملے کا حق نہیں ہے کہ وہ پروموٹ ہوں۔ ورکس اینڈ سروس ڈیپارٹمنٹ سندھ میں بطور سول انجینئر نے بتایا کہ اُسے پی ایس پی کے ذریعے دو سال بعد اسٹنٹ تعینات کیا گیا تاہم بعدازاں مجھے انسداد بد عنوانی اسٹیبلشمنٹ پر ڈیپوٹیشن کے تعینات کیا گیا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ وہ قانون بتائیں جس کے تحت اسسٹنٹ ڈائریکٹر اینٹی کرپشن میں جا سکتا ہے۔
سرکاری ملازم/ سپریم کورٹ