جاوید ہاشمی کیلئے افسوسناک مبارکباد اور پیپلز پارٹی
خبر یہ نہیں ہے کہ عامر ڈوگر جیت گیا ہے۔ خبر یہ ہے کہ جاوید ہاشمی ہار گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جاوید ہاشمی کے مقابلے میں شاہ محمود قریشی ہوتا تو وہ ہار جاتا۔ کون بتائے عمران خان کو کہ نئے لوگ اگر اچھی شہرت کے مالک نہیں بھی ہوں گے تو وہی جیت جائیں گے۔ پرانے لوگ جو حکومتوں وزارتوں کے مزے لوٹ چکے ہیں۔ میں نے کہا تھا کہ مزے لوٹنا اور مزے لینا دو مختلف عمل ہیں۔ لوٹ مار سے ہمارے پرانے لوگوں کو بہت محبت اور مہارت حاصل ہے۔ عمران کے ساتھ نمایاں لوگ سارے کے سارے پرانے ہیں اور ان پرانے لوگوں سے مل کر نیاا پاکستان بنانا ہے۔ نیا پاکستان اور پرانا پاکستان ایک جیسا ہو گا۔ شاہ محمود قریشی ’’صدر‘‘ زرداری کے وزیر خارجہ تھے۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو کے وزیر شذیر تھے۔ اور اب عمران کے وزیر شذیر ہوں گے۔ ارادہ تو ان کا وزیراعظم بننے کا ہے۔ یہ کیسے ہو گا۔ اللہ جانتا ہے یا شاہ محمود جانتے ہیں۔ معلوم تو عمران خان کو بھی ہے مگر ابھی وہ کئی مصلحتوں میں پھنسا ہوا ہے۔
ملتان کا الیکشن بھی عمران اور تحریک انصاف کی ’’پالیسیوں‘‘ کی نفی ہے۔ عامر ڈوگر نے کہا کہ وہ جیت کر تحریک انصاف میں شامل ہوں گے۔ تو کیا ابھی سے ان کا استعفیٰ دینے کا ارادہ ہے۔ جس نظام میں الیکشن کمشن کو عمران نے جعلی کہا۔ اس کے تحت عامر ڈوگر کا انتخاب لڑا۔ جو پارلیمنٹ جعلی ہے اس کے ممبر عامر ڈوگر ہوں گے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف کا مقابلہ تھا۔ نواز شریف اور عمران خان کا مقابلہ تھا۔ کئی دوست کہتے ہیں کہ لوگوں نے نواز شریف کے غصے میں سارا زور جاوید ہاشمی پر نکال دیا۔ کئی بار جاوید ہاشمی کی گاڑی روک کر گو نواز گو کے نعرے لگائے۔
ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے مگر یہ ہار جیت مختلف ہے۔ جو کچھ الیکشن لڑنے سے پہلے جاوید ہاشمی نے کہا کسی حد تک اس کی تردید ہو گئی ہے۔ جاوید ہاشمی کو یہ باتیں نہیں کرنا چاہئیں تھیں۔ کوئی خاص ثبوت ان کے پاس نہیں ہے۔ مفروضوں پر بات کرنا جاوید ہاشمی کے شایان شان نہیں تھا۔ عمران بھی ضمنی الیکشن میں دو حلقوں سے ہار گیا تھا۔ اپنی آبائی سیٹ میانوالی سے اور پشاور والی سیٹ سے کہ خیبر پختون خواہ میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ تو اس طرح ان کی سیاست تو ختم نہ ہو گئی تھی۔ بلکہ ان کی سیاست کا نیا زمانہ شروع ہوا ہے اور نیا پاکستان کی اصطلاح نکلی جو پاکستان کے خلاف ایک سازش ہے۔ ہم نیا پرانا پاکستان کے خلاف ہیں۔ ہم صرف پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔ یہی ہمارا وطن ہے۔ اسے قائداعظم کا پاکستان میرے محبوب و مرشد ڈاکٹر مجید نظامی کہتے تھے۔ یہی بات پاکستان کے لئے زیادہ مناسب ہے۔
میں نے عمران سے کہا تھا کہ اپنی آبائی سیٹ میانوالی مت چھوڑو۔ جاوید ہاشمی کو ن لیگ نہیں چھوڑنا چاہئے تھی۔ پھر تحریک انصاف کونہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ وہ تحریک انصاف میں ہوتے تو شاہ محمود جیسے مشکوک آدمیوں پر کچھ تو چیک رہتا۔ تحریک انصاف کو چھوڑ کر متنازع باتیں نہیں کرنا چاہئیں تھیں۔ بالخصوص پاک فوج کے لئے ان کے تاثرات مجھے اچھے نہ لگے۔ مجھے ان حالات میں سچ اور جھوٹ پر بحث نہیں کرنا ہے۔ پاک فوج حکومت سے تعاون کر رہی ہے۔جمہوریت کیجینوئن طریقے سے حامی ہے۔ سیاستدانوں کی جمہوریت کے لئے کوشش اپنے مفادات اور معاملات کے تحفظ کی صورت میں ہوتی ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کی پالیسی حیران کن ہے۔ حکومت کی نہیں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ حکومت اور جمہوریت میں کیا فرق ہے؟ پیپلز پارٹی پنجاب کے تقریباً سب لوگ اس پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ بلاول کچھ اور کہتا ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کچھ اور کہتے ہیں۔ ملتان میں ان کے امیدوار کی شرمناک شکست اصل میں ’’نااہل وزیراعظم‘‘ یوسف رضا گیلانی کی شکست ہے۔ انہوں نے اپنے مشکوک اقتدار میں اربوں روپے ملتان میں برباد کئے مگر لوگوں کا کچھ بھلا نہ ہوا۔ ان کی پارٹی کو کچھ فائدہ نہ ہوا۔ جنوبی پنجاب کے الگ صوبے کا جھوٹ اور فراڈ بھی ان کے گلے پڑا۔ ٹکٹ بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کو گیلانی صاحب کی سفارش پر ملا۔ تو اس میں بے چارے امیدوار کا کیا قصور ہے؟ پیپلز پارٹی والے ن لیگ کے اتنے ہی حمایتی تھے تو جاوید ہاشمی کوسپورٹ کرتے مگر ان کو ملنے والے ووٹوں سے بھی جاوید ہاشمی جیت نہ سکتے تھے۔
یہاں سے پچھلی بار جاوید ہاشمی 60 ہزار ووٹوں سے جیتے مگر اب دس ہزار ووٹوں سے ہار گئے ہیں۔ میں نے ان سے کہا تھا اور لکھا تھا کہ وہ الیکشن نہ لڑیں۔ عملی سیاست سے ریٹائر ہو جائیں اور دانشورانہ سیاست شروع کریں۔ ان کی صحت اب ان دھندوں بلکہ گورکھ دھندوں کی اجازت نہیں دیتی۔ وہ اب بھی بیرون ملک چیک اپ اور علاج کے لئے جا رہے ہیں۔ وہ الیکشن نہ لڑتے تو ان کی عزت میں اضافہ ہوتا اور عمران کو یہ کہنے کا موقع نہ ملتا کہ عزت کیسے ملی ہے اور ذلت کس کو ملی۔ جاوید ہاشمی نے ہمارے بارے میں جتنی باتیں کیں لوگوں نے بتا دیا کہ وہ جھوٹ تھیں۔ انہوں نے شاہ محمود کو مبارکباد کا فون کیا۔ اس کے بارے میں عامر ڈوگر کا کیا خیال ہے۔ وہ ملتان میں شاہ محمود کے نمبر دو بلکہ دس ہیں۔ ان کے لئے یہ نمبر بہت مناسب ہے۔ برادرم اورنگ زیب عباسی جاوید ہاشمی کے جانثار دوست ہیں۔ وہ الیکشن کے دنوں میں ملتان میں موجود تھے۔ میرے ساتھ فون پر اس کی بات ہوئی۔ وہ بہت دکھی تھا۔ وہ انگریزوں کی خدمت گزاری کے لئے شاہ محمود کے دادا شاہ محمود کا ذکر کر رہا تھا۔ یہ بہت بڑے لوگوں کی گدی ہے مگر اب کتنے داغ ان کے وجود اور لباس پر ہیں۔ یہ تو تاریخ فیصلہ کرے گی کہ داغی کون ہے مگر جاوید ہاشمی نے داغوں بھری سیاست میں ہاتھ ڈالا تو یہ ہوا جبکہ اسے معلوم ہے کہ ایک داغ تو داغ جگر بھی ہوتا ہے۔ کہیں اس نے وہ اشتہار تو بار بار نہیں دیکھا: داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔ اس کے بعد متعلقہ واشنگ پائوڈر بھی استعمال کیا مگر یہ داغ ان سے صاف نہیں ہوئے۔ ہماری سیاست ان داغوں سے دھلنے والی نہیں ہے۔ خلق خدا کی بھلائی کے بعد سیاستدان باوضو ہوں گے۔
ہاشمی سے فون پر بات ہوئی۔ وہ ہشاش بشاش تھے، جیسے سیاست کا یہ نیا دروازہ ان پر کھلا ہو۔ وہ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد کچھ نہ بولتے تو بہت اچھا ہوتا۔ وہ الیکشن بھی نہ لڑتے اور انہوں نے اب مجھ سے اتفاق کیا کہ واقعی الیکشن مجھے نہیں لڑنا چاہئے تھا۔ انہوں نے ایک بات استقامت اور امانت کے لئے بہت دلیری سے کی۔ استعفیٰ دیا۔ یہ سیٹ تو ان کے پاس تھی۔ انہیں استعفیٰ نہیں دینا چاہئے تھا مگر یہ کردار کی بات ہے۔ انہوں نے عمران سے کہا تھا کہ استعفوں کی بات چھوڑو۔ کوئی استعفیٰ نہیں دے گا۔ صرف میں استعفیٰ دوں گا۔ اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ وہ بھی تحریک انصاف کے صدر تھے۔ شاہ محمود اور شیخ رشید نے استعفیٰ نہیں دیا۔ حتیٰ کہ عمران نے بھی استعفیٰ نہیں دیا۔ سپیکر کے بلاوے پر ٹال مٹول کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جاوید ہاشمی نے اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور عامر ڈوگر کو مبارکباد دی۔ کوئی دھاندلی کی شکایت نہیں کی۔ یہ ہماری ’’اصولی‘‘ سیاست کے برعکس ایک بات ہے اور اس کے لئے ہاشمی مبارکباد کے مستحق ہیں۔ میں نے ایک جملہ لکھا تھا کہ پارلیمنٹ میں ان کے جیسا ایک آدمی بھی نہیں ہے۔ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ہے اچھا نہیں ہوا۔ اور جو کچھ انہوں نے کہا کہ وہ بھی انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ ایک خاتون اور ہے جو مبارکباد کی مستحق ہے۔ افشیں بٹ نے ایک مختلف بٹ کی کہانی پیش کی ہے۔ اس نے سب لوگوں کو للکارا کہ میں دھاندلی نہیں ہونے دوں گی۔ دھاندلی کرنے والے وہ تھے جو دھاندلی کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔