بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت رکھنے والی پی پی پی کا سیاسی مستقبل انتہائی خطرے میں
لاہور (محمد دلاور چودھری) پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے کراچی میں شاندار جلسہ کیا ہے۔لیکن جوش و خروش جو پیپلز پارٹی کے جلسوں کی روایت رہی ہے اس کا کافی فقدان تھا‘ عددی قوت کے اعتبار سے بھی حال ہی میں ہونے والے کسی بھی جلسے سے یہ بڑا تھا لیکن بڑے جلسے کرنے کی صلاحیت رکھنے والی پیپلز پارٹی کا سیاسی مستقبل انتہائی خطرے میں ہے۔ اسکی سیاسی عملداری کسی زوال پذیر سلطنت کی طرح سکڑتی جارہی ہے۔ الیکشن 2008ء میں ایک کروڑ 6 لاکھ سے زائد ووٹ لیکر 119 جنرل نشستیں حاصل کر کے پہلے نمبر پر رہنے والی پیپلز پارٹی 2013ء کے الیکشن میں صرف 69 لاکھ ووٹ لیکر 45 جنرل نشستیں ہی لے سکی۔ مقبولیت کے اعتبار سے وہ تیسرے نمبر پر آئی۔ زوال کا سفر ضمنی الیکشن میں بھی جاری ہے۔ سوال یہ ہے کہ پنجاب، خیبر پی کے اور بلوچستان میں تیزی سے سکڑتی ہوئی پیپلز پارٹی کی سیاست کو کراچی کا جلسہ کتنا سہارا دے سکے گا، تو بغیر زیادہ سوچ بچار کے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی زیادہ سہارا نہیں دے سکے گا بلکہ اسکا اثر سیاست میں ’’ویک اینڈ گیٹ ٹو گیدر‘‘ سے زیادہ نہیں ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو جس اہم نکتے کی طرف توجہ بذول کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ’’عرب سپرنگ‘‘ اور اردگرد کے ملکوں میں مضبوط ہوتی ہوئی جمہوریتوں نے پاکستانی عوام بالعموم اور نوجوانوں کے ذہنوں پر بالخصوص اثر ڈالا ہے۔ انہیں بنیادی حقوق حاصل نہ ہونے کا غصہ ہے، انہیں مشکل سے مشکل تر ہوتی ہوئی معیشت پر غصہ ہے اور اس سب سے بڑھ کر انہیں حکمرانوں کے ’’شاہانہ طرزِ زندگی‘‘ پر غصہ ہے۔ بلدیاتی الیکشن کسی حد تک یہ غصہ کم کرسکتے تھے لیکن پنجاب میں تحریک انصاف اور سندھ کے بڑے شہروں میں متحدہ کے سیاسی اثرورسوخ کی وجہ سے پنجاب اور سندھ کے حکمران بلدیاتی انتخابات سے بھی گریزاں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ روایتی جلسے، جلوسوں اور جذباتی تقاریر کا دور گزر رہا ہے۔ اگرچہ عمران خان بھی کوئی حقیقی سیاسی تبدیلی اور نئی بات سیاست میں متعارف نہیں کرسکے بلکہ اپنے اردگرد تیزی سے دوسری پارٹیوں سے آنیوالے ’’سٹیٹس کو‘‘ کے نمائندوں کا رش بڑھاتے جارہے ہیں لیکن چونکہ ایک تو وہ ابھی تک حکومت میں نہیں آسکے (خیبر پی کے میں انکی 15 ماہ کی کارکردگی کی بحث کو زیادہ اہمیت نہیں مل سکی) اور وہ ایک ایماندار ماضی بھی رکھتے ہیں اسلئے عوام تیزی سے انکی طرف متوجہ ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ کو انکے طرزِ حکمرانی میں انقلابی تبدیلیاں ہی بچا سکتی ہیں۔ عوامی فلاح کے پروگرام لانا ہونگے، تھانے، کچہریوں میں لوگوں کو انصاف مہیا کرنا ہوگا، صحت اور تعلیم کی سہولتیں دینا ہونگی اور اپنے طرزِِ زندگی میں تیزی سے سادگی لانا ہوگی۔ ملکی مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا، بلدیاتی الیکشن کرادینے میں بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ انہیں ہی نہیں انکے مخالفین کو بھی ایکسپوز کرینگے۔