• news

ایبولا وائرس…مہلک بیماری

ایبولا وائرس ایک ایسی خطرناک ترین بیماری ہے جسے ’’ایبولا ہیمرجک فیور‘‘Ebola Hemorrhagic Fever بھی کہا جاتا تھا ۔ ایبولا بخارمیں مبتلا 90 فیصد افراد کو ہلاکت کا خطرہ رہتا ہے ۔ اس بیماری میں بھی ویسی ہی علامات پائی جاتی ہیں جو ڈینگی بخار میںپائی جاتی ہیں۔ ڈینگی بخار کی طرح ابھی تک ایبولا کیلئے بھی کوئی ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ایبولا کے مریضوں کی تعداد 9000 سے زائد ہو چکی ہے۔ ان میں 4000 سے زائد اس مرض سے وفات پا چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس مرض کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ کردی ہے ۔ امریکی ادارہ امراض تدارک کے مطابق اسکے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔عالمی ادارہ صحت "ڈبلیو ایچ او" کا کہنا ہے کہ ایبولا وائرس سے متاثرہ مغربی افریقہ کے ملکوں میں صورتحال مزید بگڑ رہی ہے۔ادارے کے مطابق یہاں ہلاکت خیز وائرس "بدستور موجود ہے اور پھیل" رہا ہے۔ایبولا وائرس آنے سے دنیا بھر میں چاکلیٹ کی سپلائی کیلئے خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔آئیوری کوسٹ نے جو دنیا میں سب سے بڑا کوکا پیدا کرنیوالا ملک ہے۔ لائبیریا اورگِنی کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کرلی ہیں ۔عالمی ادارہ ِصحت کی جانب سے تنبیہہ جاری کی گئی ہے کہ ایبولا وائرس مستقبل میں پاکستان بھی پہنچ سکتا ہے۔ جہاں ایک طرف امریکہ جیسا ملک بھی بظاہر ایبولا وائرس سے لڑنے کیلئے پوری طرح تیار نہیں دکھائی دیتا، وہاں بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال گردش کر رہا ہے کہ آیا پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک ایسے کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟ پاکستان کا ایبولا وائر س کے علاقوں سے براہ راست رابطہ ہے ۔افریقی ممالک سے بڑی تعداد میں لوگ پاکستان آتے ہیں۔ اس پس منظر میں اس بیماری سے بچائو کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
حکومت پاکستان نے اس مہلک بیماری سے نپٹنے کیلئے چند دن پہلے اسلام آباد میںہونیوالے ایک اجلاس میں ایک حکمت عملی ترتیب دی ۔اس اجلاس میں صوبوں کے نمائندوں، فوج اور دیگر اداروں کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان آرمی کے وہ جوان اور افسران جو افریقی ممالک میں امن مشن میں ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں یا ایسے لوگ جوان ممالک کا سفر کرتے ہیں انہیں وطن واپسی پر 21 دن کیلئے زیر نگرانی رکھا جائے ۔ تمام صوبوں میں اس مقصد کیلئے فوکل پرسن بھی لگانے کی تجویز دی گئی۔ اجلاس میں بین الاقوامی نمائندوں، عالمی ادارہ صحت وغیرہ کے لوگوں نے بھی شرکت کی۔ تمام صوبوں کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ ہر ہسپتال میں کچھ بستر الگ وارڈ میں اس مرض سے متاثرہ مریضوں کیلئے مختص کیے جائیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سب سے پہلے یہ بیماری وسطیٰ اور مغربی افریقہ کے دور دراز دیہاتوں میں آئی جو کہ برساتی جنگلات کے قریب تھے۔ وائرس پہلے جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اسکے بعد انسانوں سے انسانوں میں پھیلا۔ 1976 میں یہ مرض سب سے پہلے کانگو اور سوڈان میں رپورٹ ہوا۔یہ وائرس افریقی جنگلات میں بیمار جانوروں بن مانس، بندر، چمگادڑ اور دوسرے جانوروں سے انسانوں میں آیا۔ وائرس سے متاثرہ انسانوں کے خون، پیشاب، تھوک یا جسم کے اعضا ء سے خارج ہونے والے مادوں سے یہ وائرس دوسرے انسانوں کو منتقل ہوتا ہے ۔ بیماری کے دوران مریض کے جسم کے اندر اور باہر خون بہنا شروع ہو جاتا ہے اور مریض خون کی کمی کے باعث ہلاک ہو جاتا ہے۔ ایبولا وائرس مریض کے تمام جسم میں قدرتی مدافعتی نظام کو معطل کر دیتا ہے۔ یہ ان خلیوں کو فنا کر دیتا ہے جو خون کے انجماد کا کام کرتے ہیں۔ نتیجتاً خون شدت سے بہنے لگتا ہے جسے روکنا ممکن نہیں ہوتا۔ ایبولا وائرس سے لاحق ہونیوالی بیماری پہلی مرتبہ 1976 میں برِاعظم افریقہ کے ملک کانگو کے دریا ایبولا کے کنارے آباد افراد میں پھیلی۔ ایبولا وائرس کو یہ نام دریائے ایبولا کے نام پر دیا گیا تھا۔ایبولا وائرس سے لاحق ہونے والی بیماری کا مرکز مغربی افریقہ ہے۔دنیا میں پانچ اقسام کے ایبولا وائرس موجود ہیں جن میں سے چار اقسام کے ایبولا وائرس انسانوں میں بیماری کا باعث بن سکتے ہیں۔
ایبولا وائرس کی بیماری نزلے، زکام اور چیچک کا باعث بننے والے وائرسوں کی طرح متعدی نہیں ہے لیکن ایبولا وائرس متاثرہ جانور یا انسان کی جِلد کے علاوہ انکے جسم سے خارج ہونیوالے سیال مادّوں سے دوسرے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔یہ ایک جانور اور انسان سے دوسرے جانور اور انسان کو لگنا شروع ہو جاتا ہے‘ جو لوگ ایبولا وائرس کا شکار ہونیوالوں کی تیمارداری کرتے ہیں یا اس سے ہلاک ہونے والوں کو دفناتے ہیں، انہیں بھی عموماً یہ وائرس لگ جاتا ہے۔ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری کی علامات ابتداء میںایسے لگتی ہے جیسے مریض کو نزلہ زکام ہو گیا ہو۔ اس کی اصل علامات وائرس سے متاثر ہونے کے دو سے اکیس دن بعد نمودار ہوتی ہیں۔ اس بیماری کی عمومی علامات یہ ہیں: تیز بخار، سر درد، جوڑوں میں درد، پٹھوں میں درد، گلے میں درد، کمزوری، معدے میں درد اور بھوک کا ختم ہو جانا۔ بیماری خطرناک مرحلے میں داخل ہوتی ہے تو مریض کے جسم کے اندر خون بہنے لگتا ہے۔ اسکے ساتھ ہی اسکی آنکھوں، کانوں اور ناک سے بھی خون بہنے لگتا ہے۔ بعض مریض خون کی الٹیاں بھی کرتے ہیں اور بعض مریض کھانسی کیساتھ خون تھوکتے ہیں۔ اسکے علاوہ بعض مریضوں کے پاخانے کیساتھ خون آتا ہے اور جسم پر خسرے کے طرح کے دانے نکل آتے ہیں۔جس شخص کے بارے میں تصدیق ہو جائے کہ وہ ایبولا وائرس سے لاحق ہونے بیماری میں مبتلا ہو چکا ہے، اسے فوراً دوسرے انسانوں سے الگ تھلگ کر دینا چاہئیے تاکہ بیماری دوسرے انسانوں کو نہ لگ جائے۔ مریض کو ٹھوس غذا نہ دی جائے۔ اسے آکسیجن بھی لگائی جاتی ہے۔ خون کا دباؤ یعنی بلڈ پریشر معمول پر رکھنے کی دوائیں بھی دی جاتی ہیںاور اسے خون بھی لگایا جاتا ہے۔ اس وائرس سے بچنے کیلئے تاحال کوئی ویکسین موجود نہیں ہے۔ اس سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان علاقوں کا سفر بالکل نہیں کیا جائے جہاں ایبولا وائرس پایا جاتا ہو یا پھیل چکا ہو۔ حفظانِ صحت کی خدمات انجام دینے والے افراد بھی نقاب لگا کر، دستانے پہن کر اور عینک لگا کر اس وائرس سے بچنے کی تدبیر کر سکتے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے جہاں دنیا بھر کے عوام کو جدید سہولتوں سے آراستہ کیا ہے وہاں مواصلاتی نظام کی ترقی نے آسانی کے ساتھ ساتھ ایسے حالات بھی پیدا کئے ہیں کہ ایک خطے میں پھیلنے والے متعدی افراض دوسرے خطے میں پہنچ کر مسائل میں اضافہ کر تے ہیں۔ گلوبل ویلج نے علاقائی بیماریوں کو بھی بین الاقومی حیثیت دے دی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن