• news

بھارتی جارحیت اور ہماری بے نیازی

یکم سے 16 اکتوبر تک بھارت نے ہر روز بارہا ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول پر جارحیت کا ارتکاب کیا چکا ہے۔ ہمارے چند فوجی شہید اور زخمی بھی ہوئے۔ متعدد شہریوں کی ہلاکت بھی ہوئی۔ درجنوں مویشی بھی مارے گئے ، مگر ہماری طرف سے ابھی تک کوئی موثر صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔ ورکنگ باؤنڈری کیا ہے ؟ جن لوگوں کو 1965ء کی پاک بھارت جنگ یاد ہے انہیں یہ بھی یاد ہو گا کہ اس جنگ میں دونوں ممالک نے ایڈوانس کیا جبکہ پاکستان کی عسکری قوت بہتر پوزیشن میں تھی مگر اس وقت کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے بھارتی ہم منسب سردار سورن سنگھ کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں سیز فائر کی اپیل کر دی اور UNO کی قرارداد کے بعد ایک Status-quo پیدا ہو گیا ۔ چنانچہ 16 اکتوبر 1965ء کو معاہدہ تاشقند کے بعد دونوں فوجوں کے کردار Across The Line متعین کرنا مقصود تھا۔ چنانچہ دریائے طوی سے لے کر شکر گڑھ تک 154 کلو میٹر کے علاقے میں ایک ورکنگ باؤنڈری قائم کی گئی۔ شکر گڑھ سے نارووال کے درمیان جو سڑک اور دربار صاحب کرتار پورچونکہ بالکل بھارت سے متصل تھے اور دربار صاحب کرتار پور میں سکھوں کی یاترا کیلئے عام آنا جانا تھا اس لیے پاکستانی رینجرز اور بھارتی BSF کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ ورکنگ باؤنڈری پر نظر رکھے اور اس علاقے میں قیامِ امن کو یقینی بنائے ، یعنی دونوں ممالک کی افواج باؤنڈری کے ساتھ لگ کر بیٹھنے کی بجائے 6/6 میل پیچھے چلی جائیں مگر بھارت وقفے وقفے سے یہاں چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔  پاکستان کی خارجہ پالیسی 1967ء کے بعد ہمیشہ Dictated رہی ہے اور داخلہ پالیسی ، خارجہ پالیسی کی رہینِ منت۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے داخلی کمزوریوں کے باعث بھارت کی چھیڑ چھاڑ کا کم کم ہی جواب دیا ہے۔ ہم صرف پروٹیسٹ ، پروٹیسٹ کھیلتے رہے۔ چنانچہ بھارت کے حوصلے جب زیادہ بڑھے تو 2004ء میں پاکستان پر بھرپور حملہ کر دیا۔ اس واقع پر ہماری افواج نے نہ صرف دفاع کیا بلکہ زبردست جوابی کارروائی کی اور دشمن کے دانت اس طرح کھٹے کر دئیے کہ اسے 1999ء کے کارگل کا جشن بھی بھول گیا۔ مگر ہماری حکومتوں کے کمزور مؤقف، گرتی ہوئی معیشت، سیاستدانوں کی مختلف سمتوں میں پروازوں کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے کوئی ایسی آواز نہیں اُٹھ سکی جو دشمن کیلئے سفارتی سطح پر خطرے کا باعث بن سکے۔ وزیراعظم نے انتہائی کمزور لب و لہجہ اور بے وزن مؤقف اٹھایا اور ورکنگ باؤنڈری پر نہ جا کر اور افواجِ پاکستان کے ساتھ وقت نہ گزار کر عیار بھارتی سیاستدانوں کو شہ دی کہ وہ پاکستان پر عسکری، سفارتی، سیاسی اور سیادتی ہر طرح سے ہر طریقے سے ہرزہ سرائی کریں۔ ہمیں تو صرف آپ سے تجارت کرنا ہے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے اور کتنا ہی قومی حمیت کا خسارہ کیوں نہ برداشت کرنا پڑے۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سمیت بھارتی حکومتی اور عسکری قائدین کی پاکستان کیخلاف زہر افشانیوں سے اس بارے میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں رہی کہ بھارت دانستہ طور پر پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا رہا ہے اور مذاکرات کی بجائے عسکری طاقت کے زور پر کشمیر کو ہڑپ کر کے مسئلہ کشمیر کا من مانا حل مسلط کرنا چاہتا ہے۔ ہاں مگر یہاں میں یہ ذکر بھول گیا کہ 2006ء میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل مہدی نے کراس باڈر فائرنگ روکنے کیلئے ایک بڑا بھاری بند تعمیر کرا دیا جس کی وجہ سے 2006ء سے 2012ء تک یہ سلسلہ جزوی طور پر معطل رہا۔ رینجرز اور پی ایس ایف دونوں فورسز کیونکہ آبادی والے علاقوں کے بہت قریب قریب ہیں اس لیے گاہے بگاہے چھیڑ چھاڑ ہو ہی جاتی ہے مگر تکلیف دہ امر ہے کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو زیر اثر لانے کی پوری کوشش کی۔
یہاں بھی بھارت کی عیاری ملاحظہ کیجئے، اس نے جس وقت دیکھا کہ پاکستان کی 1,73,000 فوج وزیرستان آپریشن میں مصروف ہے ، باقی فوج کا بڑا حصہ سوات ، کراچی اور افغانستان سے ملحقہ علاقوں میں تعینات ہے۔ سیاچن میں بھی دستے رکھنا مجبوری ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں بھی فوج متعین ہے۔ سیلاب کی صورتحال سے نمٹنے اور سیلاب زدگان کی مدد کیلئے فوج ہی کردار ادا کر رہی ہے۔ بھارت یہ سوچ کر کہ اس وقت پاک فوج اپنے داخلی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ اس نے ورکنگ باؤنڈری پر حملے کر کے سینکڑوں کی تعداد میں مارٹر گولے داغے جس سے معصوم نہتے، بے گناہ پاکستانی شہید ہوئے بلکہ مختلف سرحدی دیہات سے لوگ بڑی تعداد میں انخلا پر مجبور ہو گئے اور یہ سب نریندر مودی کے ایما پر کیا گیا۔ مودی UNO سے واپسی کے بعد اپنے سفاکانہ کردار کی وجہ سے یہ تہیہ کئے بیٹھے ہیں کہ اس ورکنگ باؤنڈری کو انٹرنیشنل بارڈر تسلیم کرایا جائے۔  پاکستان کی کمزور معیشت امن و امان کے مسائل اور ناقص سیاسی نظام کی وجہ سے پاکستان کو کمزور تصور کرتے ہوئے وہ اپنی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن افواج پاکستان نے بروقت کارروائی کر کے ایک بار پھر دفاع وطن کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی کمٹمنٹ کو نہ صرف پور ا کیا بلکہ دشمن کو پیغام بھی دیا کہ پاک فوج وطن عزیز کا بھرپور دفاع کرنا جانتی ہے۔ جہاں تک پاکستان کی سیاسی قیادت کا سوال ہے تو اس سے کسی اچھے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ انہیں اقتدار کی ہوس اور کرپشن نے ناکارہ کر دیا ہے۔ یہاں بھی فوج ہی ہماری امیدوں کا مرکز ہے۔
دوسری طرف دیکھئے! بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی اپنے منشور اور ایجنڈے کے عین مطابق پاکستان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا کریڈٹ اپنے کھاتے میں ڈالنے پر تُلی بیٹھی ہے۔ جس میں عقل و دانش کی کوئی بات اسے قابل قبول ہو سکتی ہے، نہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے عالمی دباؤ قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ بھارتی حکومت کی یہ پالیسی عالمی امن و سلامتی کو تاراج کرنے کے مترادف ہے جس کا عالمی برادری کو اقوام متحدہ کو مؤثر بنا کر فوری اور مناسب نوٹس لینا چاہیے بصورت دیگر پاکستان کی سالمیت کیخلاف جارحیت پر اُترے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہوں گے اور وہ کسی بھی قیمت پر پاکستان دشمن ایجنڈے کی تکمیل کے اقدامات اٹھانے سے گریز نہیں کریگا۔
بی جے پی حکومت کے اس ایجنڈے کے تحت ہی گذشتہ ماہ اسلام آباد میں ہونیوالی خارجہ سیکرٹریوں کی ملاقات حیلے بہانے سے منسوخ کی گئی اور پھر یو این او اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر پاکستان کیخلاف بھارتی ہرزہ سرائی انتہا کو پہنچا دی گئی۔
اس وقت ہماری سالمیت کیخلاف بھارتی عزائم پوری دنیا کے سامنے ہیں مگر اس وقت بھی اقوام متحدہ کے ذریعے اس کا جنونی ہاتھ نہ روکا گیا تو پاکستان بھی اپنی سالمیت و تحفظ کیلئے عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور ہو گا۔ جہاں تک مسئلہ کشمیر کا سوال ہے تو وہ 61 سال سے حل طلب چلا آ رہا ہے اور اب بھارت اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو بھی عالمی ادارے کی چادر سے نکلوانے کیلئے سفارتی چارہ جوئی کر رہا ہے اور اسی لیے شاید اس نے ہم پر حالت جنگ کی کیفیت طاری کر رکھی ہے تاکہ ادھر سے ہمارا دھیان بٹا رہے۔ ہماری بد قسمتی یہی ہے کہ سفارتکاری میں ہم کاہل اور انتہائی سُست ثابت ہوئے ہیں۔ جس طرح کی چالیں بھارت چلتا ہے، ہمارے سفارتکار اسے سمجھنے میں ہی اتنی دیر لگا دیتے ہیں کہ بھارت اگلا قدم بھی اٹھا چکا ہوتا ہے۔ کمزور سفارتکاری در اصل ، کمزور یا لاپروا حکومت کی آئینہ دار ہوا کرتی ہے۔ جس ملک کی خارجہ پالیسی واضح نہ ہو، اس ملک کی سفارتکاری کے بارے میں سمجھا جا سکتا ہے کہ کس نوعیت کی ہو گی۔ یہاں بھی آ جا کے فوج ہی کا خیال آتا ہے مگر فوج اب کس کس محاذ پر لڑے ۔ سب کچھ فوج ہی نے کرنا ہے تو پھر اتنی لمبی چوڑی پارلیمنٹ پر اربوں کھربوں خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ سول حکومت خود سوچے کہ اب لوگ اسکے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں ۔ ایسی جمہوری حکومت جو جمہور کو تحفظ فراہم نہ کر سکے، جس کی موجودگی میں سرحدیں محفوظ نہ ہوں ، داخلی طور پر امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہ ہو ، گڈ گورنس کا تصور محال ہو ، جس کا مطمع نظر قومی حمیت کی حفاظت کے بجائے تجارت ہو اور وہ بھی بنیئے کے ساتھ کیا کہا جا سکتا ہے بس ، حکمرانوں سے اپیل ہی کی جا سکتی ہے کہ خدارا سیاست کے عالمی تناظر کو سمجھیں اور باہمی اختلافات کو ختم کر کے ملکی سالمیت ، استحکام اور اس کی بقا پر توجہ دیں۔ لوگوں نے آپ کو ووٹ اسی لیے دیے تھے اور خدارا اپنی ذاتی انا کو بیچ میں نہ لائیں۔

ای پیپر-دی نیشن