اتوار‘ 23؍ ذی الحج 1435ھ‘ 19 ؍ اکتوبر 2014ء
ثانیہ سے ناراض نہیں، دونوں کھیلوں میں مصروف ہیں، شعیب ملک نے اہلیہ سے اختلافات کی خبروں کی تردید کر دی!
آخر دال میں کچھ کالا کالا توہوگا جس بنا پر عجیب و غریب خبریں گردش کر رہی ہیں گو کہ شعیب ملک اس کی تردید کر رہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں گڑبڑ ضرور ہے کیونکہ شعیب ملک آجکل ٹیم سے بھی فارغ ہیں اور ثانیہ سے بھی دور ہیں آخر تنہائی میں وہ کیا کرتے ہوں گے۔ بقول حفیظ جالندھری …؎
نظر آتی نہیں صورت حالات کوئی
اب یہی صورت حالات نظر آتی ہے
شعیب ملک جب کرکٹ کے میدان میں ہوتے ہیں ثانیہ تب گرائونڈ میں بیٹھ کر اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے لیکن جب شعیب گھر بیٹھا ہوتا ہے تو وہ اس کے پاس گھر نہ آنے کے بہانے دنیا کے چکر لگا رہی ہوتی ہے۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عشق کا غبار جو دونوں طرف اٹھا تھا وہ جھاگ کی طرح بیٹھ رہا ہے اور یہ شادی اب کمرشل شادی بن گئی ہے۔ ایسے ہی عشق کے بارے میں پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ…؎
عشق مجازی تے تِلکن بازی
نئے دور کے عشق ایسے ہی ہوتے ہیں۔ اب ہیر رانجھا یا سوہنی مہینوال جیسے عاشق کہاں ملتے ہیں، آجکل تو ہر کوئی پیسے کا پُجاری ہے جس نے نوٹ دکھایا عشق میں اس کا پلڑا بھاری۔ عشق کی شادی میں انسان کا حال دھوبی کے پالتو جانور کی مانند ہوتا ہے جو گھر کا ہوتا ہے نہ ہی گھاٹ کا۔
شعیب ملک نے جس چاہت سے شادی کی ہے انہیں اس چاہت پر قائم رہتے ہوئے اب ثانیہ کو پیا گھر سے لے آنا چاہئے، اسے پاکستان کی فضائوں میں رکھ کر یہاں کا بنانا ضروری ہے اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر شعیب کو گھر داماد بننا پڑے گا ۔
جس کے لئے شاید وہ پہلے ہی تیار ہوں کیونکہ ان کا بلا نہیں چل رہا، گھر تو چلائیں۔ اس عمر میں یا گھر چلے گا یا بلا۔ اب انہیں خود ہی فیصلہ کر لینا چاہئے کہ وہ کیا چلانا چاہتے ہیں کیونکہ کرکٹ بھی عشق ہے اور ثانیہ بھی عشق۔
٭…٭…٭…٭
گجرات : چوری کے الزام میں 11 سالہ بچہ گرفتار، پولیس کا تشدد، جیل منتقل !
گجرات کے چوہدریوں اور وڈیروں نے کچھ عرصہ قبل ایک بچے کے بازوچارہ کاٹنے والی مشین میں دیکر کاٹ دیئے تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب دوڑتے ہوئے گجرات گئے تھے اور بچے کے سر پر ہاتھ رکھا، بچے کو مصنوعی بازو لگوانے کا کہا لیکن ابھی تک اس بچے کی کوئی خیر خبر نہیں۔ ملزم اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے بھاری پیسے کا استعمال کر رہا ہے اب ایک اور معصوم بچہ ایسے تشدد کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔ ہمارے ملک میں وڈیروں اور چوہدریوں کی حکومت ہے یہاں پر غریب ہونا تو سب سے بڑا جرم ہے۔ پولیس تھانہ صدر جلالپور جٹاں نے عمر اقبال کو چوری کے الزام میں دو ہفتے قبل حراست میں لیا تھا لیکن تشدد کرنے کے باوجود وہ معصوم بچے سے ایک روپیہ بھی برآمد نہیں کر سکی اور عدالت سے ریمانڈ لینے پہنچ گئی۔
دو ہفتے تک بچے کو غیر قانونی تھانے میں رکھنے کا کیا جواز ہے۔ ہمارے ملک میں اگر محکمہ پولیس سدھر جائے تو 95 فیصد مسائل خود بخود ہی ختم ہو جائیں گے۔ حبیب جالب نے کہا تھا کہ…؎
کہاں بدلے ہیںدن فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
یہ غریب بچہ اگر کسی وزیر مشیر کا بھتیجا یا بھانجا ہوتا تو پولیس اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ ایک نابالغ بچے کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ کیا یہی قانون کی حکمرانی ہے؟ اگر غریبوں کو انصاف نہ ملا تو پھر عوام اس نظام کے بارے میں یہی کہیں گے کہ…؎
شاہیں اُڑا قیدی پرندوں کو بتا کر
ٹکرائو سلاخوں سے اُڑو خوں میں نہا کر
گر زور ہے بازو میں تو فریاد نہ کر
پچھتائو گے آخر تم زنجیر ہلا کر
حکمران عوام کو مجبور مت کریں اور اس نظام کیخلاف بغاوت پر مت اکسائیں اور عوام کو انصاف مہیا کریں۔
٭…٭…٭…٭
اسلام آباد ڈی چوک پر مسائل کے ستائے شخص نے کھمبے سے چھلانگ لگا دی!
ہمارے ہاں پہلے لوگ کھمبوں پر لوگوں کو صرف ڈرانے کیلئے چڑھتے تھے اور اپنے مطالبات منوا کر نیچے اُتر جاتے تھے لیکن اب ڈرانے دھمکانے سے بات آگے نکل گئی ہے۔
عراق کویت جنگ میں جن پاکستانیوں کا سب کچھ اُجڑ گیا تھا انہیں ابھی تک ان کا حق نہیں مل پا رہا۔ اگر وہ کھمبوں پر چڑھ کر اپنے حق کے لئے حکومت سے لڑیں نہ تو کیا کریں۔
ایک اور آدمی گاڑی چوری ہونے پر بطور احتجاج کھمبے پر چڑھا تھا اگر ان افراد کو بروقت انصاف مل جاتا تو کھمبوں پر چڑھ کر انہیں احتجاج کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔
اگر یہ سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر ہر ماں انصاف کے حصول کے لئے بچے سے کہئے گی کہ جا بیٹا کھمبے پر چڑھ جا۔ عوام کو حکومت اپنے خلاف بغاوت پر نہ ابھارئے عوام کے مسائل حل کئے جائیں۔ اگر کھمبوں پر چڑھنے کا رجحان تقویت پکڑ گیا تو حکومت کے لئے اس رجحان کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔ حکومت ہتھیلی پر سرسوں جمانے کا سلسلہ ترک کر کے عوام کو انصاف مہیا کرے اور عوام کو بغاوت کی جانب مت دھکیلے اسی میں حکومت کی بھلائی ہے ورنہ چارسُو یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
٭…٭…٭…٭