عمر ابنِ خطاب رضی اللہ عنہ
امیر المومنین مرادِ رسول حضرت عمر ابن خطاب ؓ تاریخ اسلام کے ایک آفتاب ِنیم روز ہیں ۔ حضرت عمر ؓ کا تعلق بنو عدی سے ہے ۔ عدی کی طرف منسوب ہونے کی بنا پرحضرت عمر کو’’ العدوی‘‘ کہاجاتاہے ۔ قریش مختلف قبیلوں میں منقسم ہوئے ان میں دس قبائل بڑے ممتاز گردانے جاتے تھے ۔قبیلہ بنو عدی بھی ان میں شامل تھا ، حضرت عمر کے شجرہ نسب میں آٹھویں پشت پر عدی کانام ملتا ہے۔ کعب بن لوئی پر حضرت عمر کا سلسلہ نسب حضور اکرم ؐسے مل جاتاہے۔ زمانہ جاہلیت میں قریش کے اہم قبائل کوکچھ خاص مناصب موروثی طور پر سپردکردیے گئے تھے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں ’’سفارت ‘‘اور ’’فیصلہ منافرہ‘‘ کے منصب تھے ۔ جب کبھی قریش کہیں کوئی سفارت بھیجنا چاہتے یا قریش کی کسی ایک یا متعدد قبیلوں سے جنگ چھڑ جاتی تو مذکرات کیلئے اورمعاملات طے کرنے کیلئے قریش خاندان بنو عدی کے سربراہ کو یااسکے نامزد نمائندے کو سفیر بناکر بھیجتے تھے اسی طرح بعض اوقات یوں ہوتا کہ دو قبیلوں کے درمیان ایک دوسرے سے شرف نجابت یا دیگر فضائل میں ایک دوسرے سے برترہونے کے مسئلے پر نزاع پیدا ہوجاتا ۔ ایسی صورت میں فیصلہ کرنے والے کو ’’منافر‘‘ کہتے ۔ قریش اپنے ’’منافرہ ‘‘ کافیصلہ بھی بنو عدی کے افراد سے کرواتے تھے ۔ جب بنو ہاشم کے سربراہ عبدالمطلب اوربنو امیہ کے رئیس حرب بن امیہ کے درمیان منافرہ کی صورت پیدا ہوئی تو حضرت عمر کے دادا نفیل حکم مقرر ہوئے اور انہوں نے فریقین کے دلائل سن کرحضرت عبدالمطلب کے حق میں فیصلہ کیا۔ حضرت عمر کے والد خطاب قبیلہ کے سردار تھے, جو سیادت و قیادت کی اعلی صلاحیتوں کیساتھ ساتھ شاعری اورنسب دانی کے حوالے سے بھی بڑی شہرت کے حامل تھے قبیلہ بنو عدی کے ایک اور نامور فرزند زید بن عمرو بن نفیل ہیں ۔ جنہوںنے دورجاہلیت میں غور وفکر اور اپنی فطرت سلیمہ کے باعث بت پرستی سے بیزاری کا اظہارکردیا، یہ حضوراکرم ؐ کی بعثت سے پہلے کی بات ہے اس پر انہیں بڑی اذیتیں اٹھانا پڑی اوروہ شام کی طرف ہجرت کرگئے جہاں انہیں عیسائیوں نے قتل کردیا۔ حضرت سعید بن زید ؓ جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں انہی کے لختِ جگر ہیں۔ حضرت عمر کے بھائی زید بن خطاب ؓ کاشمار ممتاز صحابہ میں کیاجاتاہے ۔ حضرت عمرکی والدہ حنتمہ کا تعلق بنو مخزوم سے ہے ،جو قریش کی جنگی تیاریوں کے ذمہ دار تھے، حنتمہ حضرت خالد بن ولیدکی چچازاد بہن تھیں۔ سفارت اور منافرہ کے منا صب اپنے زمانے کے سیاسی، معاشی، عمرانی اورجغرافیائی حالات سے مکمل واقفیت کا تقاضہ کرتے ہیں۔حضرت عمر کی شخصیت میں معاملہ فہمی ، شجاعت ، ذوقِ شعری اور نسب دانی کے خواص یکجاہوئے دور دراز کے تجارتی سفروں نے انہیں حقائقِ زندگی سے آشناکیا ۔ حضوراکرم ؐ کی نظر اس باصلاحیت شخص پر پڑی ،قدر دان اور قدر شناس پیغمبر نے اپنے پروردِگار سے انہیں اسلام کے لیے مانگ لیا۔