محدود جنگ کی نئی بھارتی پالیسی کا مقابلہ جارحانہ سفارتکاری سے کیا جائے: تجزیہ کار
لاہور (جواد آر اعوان /نیشن رپورٹ) دفاعی تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ بھارتی فورسز کی جانب سے ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر بلا اشتعال فائرنگ نے پاکستان بھارت کے درمیان ’’محدود جنگ‘‘ کے امکانات بڑھا دیئے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنی مسلح افواج کے ساتھ ایک مشترکہ کانفرنس میں کہا ہے کہ مستقبل کی جنگوں کا دورانیہ مختصر ہو گا اور مکمل جنگ اب شاذونادر ہی ہونگی۔ انہوں نے کہاکہ اپنے دفاع اور دوسروں پر اثر انداز ہونے کیلئے طاقت کا استعمال ایک ٹول کے طور پر برقرار رہیگا۔ دفاعی تجزیہ کاروں نے مودی کے اس بیان کو بھارت کی جانب سے محدود جنگ پر مبنی بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی نئی جنگی پالیسی قرار دیا ہے۔ ’’دی نیشن‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفی نے کہا حالیہ بھارتی جارحیت ایک محدود جنگ کا راستہ بنانے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے تاہم یہ جنگ طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ جنگ کے حالات کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت افغانستان میں اپنا کردار بڑھانا ‘ پاکستان کے راستے مشرق وسطی کے ملکوں میں تجارت کو محفوظ بنانے اور کشمیر کو اپنا حصہ بنانے کے استبدادی ایجنڈے پر عمل چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا پاکستانی رہنمائوں کو انپے بیانات پر مطمئن نہیں ہونا چاہئے بلکہ ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت کو عالمی سطح پر اٹھانے کیلئے جارحانہ سفارتکاری شروع کرنا ہو گی۔ بھارتی خطرات سے نمٹنے کے حوالے سے انہوں نے روس کا تعاون حاصل کرنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہاکہ روس بھی اس وقت خطے میں اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔ پاکستان اسکے ساتھ ملکر خطے میں نئی عالمی طاقتوں کے اتحاد کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ دوسرا آپشن فوجی ہے جس کے ذریعے پاکستان بھارت پر دبائو بڑھا سکتا ہے۔ اس حوالے سے چین کے کردار پر انہوں نے کہا کہ وہ لداخ میں بھارت سے سرحدی تنازع کی موجودگی کے تناظر میں چین کے کسی موثر کردار کا امکان نہیں دیکھ رہے۔