جاوید ہاشمی کی ’’شکست‘‘ کے ملکی سیاست پر اثرات
نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ مخدوم جاوید ہاشمی سے یارانہ پانچ عشروں پر محیط ہے جب وہ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس کے صدر منتخب ہوئے تو ان سے دوستی کا آغاز ہوا جس پر سیاست کا گرم سرد موسم کبھی اثر انداز نہ ہو ا وہ اپنی افتاد طبع کے لحاظ سے ’’باغیانہ مزاج‘‘ رکھتے تھے شاید ان کے اس مزاج کی وجہ سے ہی ان کو اپنی زندگی کا ایک طویل عرصہ قید و بند کی صعوبتوں میں گذارنا پڑا ان کے جماعت اسلامی سے تحریک انصاف تک کے سیاسی سفر میں کئی طوفان آئے لیکن انہوں نے ہمیشہ حق و صداقت کا پرچم مضبوطی سے تھامے رکھا۔ انہوں نے اپنا سب سے زیادہ وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) میں گزارا یہی وجہ ہے انہیں سب سے زیادہ عزت و توقیر بھی اسی جماعت میں ملی لیکن جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب ان کی عزت و توقیر میں کمی آ گئی ہے تو انہوں نے اپنی راہ لے لی مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی پر مسلم لیگی کارکن اور ان کے دوست رو پڑے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت نے پارٹی میں بے پناہ عزت دی جس رات شریف خاندان سعودی عرب جلاوطن کیا جا رہا تھا اس رات میاں نواز شریف نے پارٹی کی صدارت کا تاج مخدوم جاوید ہاشمی کے سر سجا دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ انہیں شریف خاندان کا کس قدر اعتماد حاصل تھا۔ وہ نواز شریف اور شہباز شریف کی جلاوطنی کے ایام میں قائم مقام صدر کی حیثیت سے پارٹی کے سیاہ سفید کے مالک رہے لیکن جب میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف وطن واپس آگئے تو لامحالہ پارٹی میں ان کی اہمیت میں قدرے کمی آ گئی پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں برسر اقتدار آنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا بہ امر مجبوری حصہ بننا پڑا تو مخدوم جاوید ہاشمی نے فوجی ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف سے حلف لینے سے انکار کر کے پارٹی قیادت کے لئے مشکل صورتحال پیدا کر دی اسی طرح جب پاکستان مسلم لیگ (ن) اپوزیشن بنچوں پر جا بیٹھی تو میاں نواز شریف نے اپوزیشن لیڈر کا تاج چوہدری نثار علی خان کے سر سجا دیا، بظاہر مخدوم جاوید ہاشمی نے اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار نہیں کیا لیکن انہوں نے میاں نواز شریف کے اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا، انہوں نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپوزیشن لیڈر کے ڈسپلن میں نہ سمجھا۔ کچھ چوہدری نثار علی خان نے اس کے باوجود ان سے کبھی گلہ و شکوہ نہیں کیا ایسی ہی کیفیت خواجہ آصف کی رہی ہے جو بظاہر چوہدری نثار علی خان کے قریبی دوست رہے ہیں لیکن انہوں نے بھی چوہدری نثار علی خان کو کبھی اپنے دل سے اپوزیشن لیڈر تسلیم نہیں کیا۔ خواجہ آصف اور مخدوم جاوید ہاشمی شدید لڑائی کے باوجود دونوں نثار کی مخالفت کے نکتہ پر اکٹھے تھے یہ بات قابل ذکر ہے جب پارٹی کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں مرکزی عہدیداروں کے انتخابات عمل میں لائے جا رہے تھے تومخدوم جاوید ہاشمی نے پنجاب ہائوس میں پارٹی کا سینئر نائب صدر بنانے کے میاں نواز شریف کے فیصلے کو یہ کہہ کر کہ ’’آپ سے یہ جو آدھ گھنٹہ ملاقات ہو گئی ہے اس عہدے سے زیادہ اہم ہے‘‘ مسترد کر دیا لیکن جب مرکزی کونسل کے اجلاس میں مخدوم جاوید ہاشمی کا نام مرکزی عہدیداروں میں نہ لیا گیا تو پورا پنڈال ’’ہاشمی ہاشمی‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھا اور پھر انہیں پارٹی کارکنوں کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ لیکن یہ حقیقت ہے مخدوم جاوید ہاشمی اور شریف برادران کے درمیان فاصلے بڑھنے کی بنیادی وجہ ان کا ’’کچن کیبنٹ‘‘ سے نکا لاجانا ہے وہ مہینوں رائے ونڈ سے بلاوے کا انتظار کرتے رہتے لیکن ان کو ’’کچن کیبنٹ‘‘ کے کسی اجلاس میں مدعو کیا جاتا اور نہ ہی ان سے اعلیٰ سطح کی مشاورت کی جاتی۔ جس رات مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا اگر بیگم کلثوم نواز ان کو منا لیتیں تو وہ اپنی بہن کی لاج رکھتے ہوئے پارٹی نہ چھوڑتے پھر عمران خان کا ’’سحر‘‘ انہیں تحریک انصاف میں لے گیا لیکن تحریک انصاف کا صدر منتخب ہونے کے باوجود ان کا دل مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کے لئے دھڑکتا رہا پارلیمنٹ ہو یا کوئی جلسہ وہ میاں نواز شریف سے اپنی محبت چھپائے نہ رکھتے۔ ان کے اس طرز عمل کی وجہ سے عمران خان نے انہیں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ شاہ محمود قریشی کو بنا دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کو اپنی 40، 45 سالہ سیاسی زندگی میں کئی بار کامیابی و شکست دیکھنا پڑی ہے ماضی میں تین چار انتخابی معرکوں میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن وہ مسلم لیگ (ن) کے ایسے شاہ سوار تھے کہ میاں نواز شریف نے انہیں جس انتخابی حلقے سے انتخاب میں اتارا، وہ کامیاب لوٹے۔ 2008ء کے انتخابات میں تین حلقوں سے کامیابی کے جھنڈے گاڑے راولپنڈی کے’’سیاسی نجومی‘‘ کی ضمانت ضبط کروا دی لیکن این اے 149 کا انتخابی حلقہ خالی کرنے کی میاں نواز شریف کی ہدایت نظر انداز کر کے این اے 55 خالی کر دیا وہ این اے 149 کو اپنے پاس رکھنا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف ان کے خاندان کے کسی فرد کو اکاموڈیٹ کرنے کے لئے تیارنہ تھے جس کے باعث مخدوم جاوید ہاشمی اور شریف خاندان کے درمیان فاصلے بڑھتے گئے مخدوم جاید ہاشمی جیسے قد کاٹھ کا لیڈر کبھی اپنے حلقے میں مقید نہیں ہوا کرتا وہ اپنا بیشتر وقت ملک کے طول عرض میں گزارتا ہے اس لئے اس کا اپنے حلقے کے عوام سے بھی رابطہ کمزور ہو جاتا ہے مخدوم جاوید ہاشمی کی شکست میں تحریک انصاف کے ووٹ بنک کا بڑا عمل دخل ہے لیکن اہم سوال یہ ہے عمران خان نے ضمنی انتخاب سے قبل قاسم سٹیڈیم میں جس بڑے جلسے کو ملتان کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ قرار دیا تھا اس کے انتخابی نتائج 2013 ء کے انتخابات سے زیادہ مختلف نہ تھے اس حلقے سے پہلے بھی مخدوم جاوید ہاشمی 10ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے اب تحریک انصاف کا حمایت یافتہ امیدوار کم و بیش اسی تناسب سے جیتا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ شہری حلقے میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ نہیں ہواجو مخالف سیاسی جماعتوں کا صفایا ہی کر دے۔ اگرچہ انتخابی نتائج کے مطابق مخدوم جاوید ہاشمی کوشکست کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن ان کی شکست اس لحاظ سے’’ فاتحانہ‘‘ ہے کہ انہوں نے جس جرأت و بہادری سے عمران خان کے سیاسی عزائم کو بے نقاب کیا ہے اس کی پاکستان کی سیاسی و جمہوری تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے دھرنے کی آڑ میں جمہوری حکومت کو گرانے کی سازش کو بے نقاب کر کے عمران خان کو ’’بیک فٹ‘‘ پر کھیلنے پر مجبور کر دیا۔ ’’بغاوت‘‘ مخدوم جاوید ہاشمی کی سرشت میں شامل ہے اس نے پرویز مشرف کے خلاف بغاوت کر کے خود کو جیل کی سلاخوں میں مقید کر لیا لیکن فوجی ڈکٹیٹر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ اسی طرح جب انہوں نے عمران خان کے پس پردہ عزائم کو بھانپ لیا تو نہ صرف عمران خان سے راستہ الگ کر لیا بلکہ ان کے’’سیاسی منصوبہ‘‘ کو ناکام بنا دیاوزیر اعظم محمد نواز شریف سے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تک سب ہی موجودہ سیاسی بحران میں مخدوم جاوید ہاشمی کے جرأت مندانہ کردارکے معترف ہیں۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سکرپٹ کے مطابق حکومت گرانے کے لئے مطلوبہ لوگ ہی اسلام آباد لا سکے اور نہ ہی ان کو عسکری قیادت کی تائید حاصل ہو سکی اسی طرح جہاں پوری پارلیمنٹ دھرنے والوں کے خلاف کھڑی ہو گئی وہاں مخدوم جاوید ہاشمی نے تن تنہا عمران خان کے پورے پلان کو ناکام بنا دیا انہوں نے انتخابی نتائج کی پروا کئے بغیر تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ملنے والی نشست سے استعفیٰ دے دیا جس طرح تحریک انصاف نے کھل کر عامر ڈوگر کی حمایت کی ہے اگر مسلم لیگ (ن) بھی اسی طرح ان کے لئے انتخابی ماحول بناتی تو انتخابی نتائج بھی مختلف ہو سکتے تھے۔ مخدوم جاید ہاشمی ایسا شاہ سوار ہے جو بار بار گرتا اور پھر اٹھ کر اپنے مخالفین سے پنجہ آزمائی کرتا ہے لیکن شکست تسلیم نہیں کرتا اگر قومی اسمبلی کے سپیکر آفس میں کئے جانے والے وعدے پر تمام سیاسی جماعتیں قائم رہتیں اور مخدوم جاوید ہاشمی گھر گھر انتخابی مہم چلاتے تو وہ آج کامیاب ہوتے لیکن جاوید ہا شمی اپنی انتخابی شکست پر افسردہ دکھائی نہیں دیتے تاہم وہ عمران خان کے غیر جمہوری عزائم کو ناکام بنانے میں پر پوری طرح مطمئن ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مخدوم جاوید ہاشمی کو گلے لگا لینا چاہیے کیونکہ صبح کا بھولا شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہنا چاہیے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے اپنے کفن کے لئے مسلم لیگ کے پرچم کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے اندر سے عمران خان مسلم لیگ نہیں نکال سکا۔ میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کو آگے بڑھ کرمخدوم جاوید ہاشمی کو مسلم لیگ میں واپس لے آنا چاہیے ۔