• news

سینٹ: سیلاب کو روکنے کے لئے اقدامات نہ ہونے پر احتجاج، بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا نہ بھارت نے آبی جارحیت کی: خواجہ آصف

اسلام آباد(نامہ نگار+ نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں)پارلیمنٹ اور ارکان کے اختیارات، استثنیٰ اور استحقاقات) بل 2014 ایوان بالا میں پیش کر دیا گیا، چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری نے بل کو قائمہ کمیٹی قانون و انصاف کے سپرد کردیاجبکہ بل پر مشاورت کیلئے دونوں ایوانوں کی مشترکہ خصوصی کمیٹی بنا نے کا فیصلہ بھی ایوان نے کیا، چیئر مین سینٹ قائد حز ب اختلاف اور قائد ایوان کی مشاورت سے کمیٹی کے ممبران کا اعلان کرینگے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بل ایوان میںپیش کیا ، جس پر سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا گزشتہ سینٹ میں بھی یہ بل قائمہ کمیٹی کو بھجوایا گیا تھا، فرحت اللہ بابر اس پر پھر نظرثانی کر لیں تو بہتر ہو گا،سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا یہ بل منظور ہو جائے تو تمام اداروں کے سربراہوں کو قائمہ کمیٹیوں کے اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ سینیٹر حاجی محمد عدیل اور سینیٹر زاہد خان نے کہا ارکان پارلیمنٹ کے استحقاق کا تحفظ ضروری ہے، کے ای ایس سی کے چیف ایگزیکٹو کو قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں طلب کیا گیا لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے اور عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا۔ اس موقع پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تحریک پیش کی کہ ارکان پارلیمنٹ اختیارات، استثنیٰ و استحقاقات بل 2014 پیش کرنے کی اجازت دی جائے۔ ایوان نے تحریک کی منظوری دیدی جس کے بعد سینیٹر فرحت اللہ بابر نے بل ایوان میں پیش کیا۔مزید براں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کی تحریک استحقاق پر قائمہ کمیٹی برائے قواعد و ضوابطہ و استحقاقات، قائمہ کمیٹی برائے مکانات و تعمیرات اور ٹریڈ آرگنائزیشن ایکٹ 2013 میں ترمیم کا بل ٹریڈ آرگنائزیشن (ترمیمی) بل 2014 پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ ایوان بالا میںپیش کر د ی گئیں۔آن لائن کے مطابقسینٹ میں ارکان نے سیلاب کو روکنے کیلئے اقدامات نہ ہونے اور خاص طور پر محکمہ موسمیات کے انتباہ کے باوجود اقدامات نہ کئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اس امر پر بھی تشویش ظاہر کی کہ اب متاثرین چیک لے کر بنکوں میں جاتے ہیں تو وہاں پیسے نہیں ہوتے،سینٹرحمزہ کے کالاباغ ڈیم کا معاملہ اٹھانے پر سینیٹر فرحت اللہ بابر اور حاجی عدیل نے انہیں اس پر بات کرنے سے روک دیا۔ سینیٹر محسن لغاری کا کہنا تھا کہ کوئی اس بات پر غور نہیں کرتا کہ سیلاب کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔ ابھی تک 2010ء کے سیلاب سے متاثرہ افراد بھی مکمل طور پر بحال نہیں ہوسکے۔ ایم کیو ایم کے سینیٹر نے واضح کیا پانی کے بڑے ذخائر اور چھوٹے ڈیموں کی تعمیر پر کسی قسم کی توجہ نہیں دی جارہی۔ سینیٹر زاہد خان کا کہنا تھا کہ منگلا میں اس دن پانی چھوڑا گیا جس دن سیلاب آیا لوگ چیک لے کر بینکوں میں جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے پیسے ہی نہیں ہیں یہ تو جمہوری حکومت کا حال ہے۔ اووربلنگ یا اضافی بلوں کا مسئلہ مہنگی بجلی کی پیداوار کے باعث ہے۔ سینیٹر ایم حمزہ کا کہنا تھا کالا باغ ڈیم بنایا جاتا تو بجلی کی وافر پیداوار او سیلاب کو روکنے میں کافی مدد ملتی۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا چھوٹے ڈیموں کی زیادہ سے زیادہ تعمیر پر کوئی اعتراض نہیں تاہم کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے شدید اعتراض و تحفظات ہیں پنجاب تو سیلاب سے بچ سکے گا بجلی بھی ملے گی پانی بھی ذخیرہ ہوگا تاہم ملکی وحدت تباہ ہوجائے گی۔ سینیٹر زاہد خان نے کہا نہ تو حالیہ اور نہ ہی 2010ء کے سیلاب کو کالا باغ ڈیم کی موجودگی روک سکتی تھی۔ سینیٹر حاجی غلام نے کہا سیلاب کی بد انتظامی کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔محسن خان لغاری کی بحث کو سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع و پانی و بجلی سینیٹر خواجہ محمد آصف نے کہا مکمل اتفاق رائے کے بغیر حکومت کسی ڈیم کی تعمیر کو شروع کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بجلی کے نرخوںمیں اضافے کی تردید کرتے ہوئے انہوں نے کہا بجلی کی قیمتوں میں نیٹ اضافہ نہیں کیا گیا نہ ہی بجلی کے نیٹ ٹیرف کو بڑھایا گیا ہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر یا دیگر علاقوں میں پانی نہیں چھوڑا اور یہ آبی دہشتگردی والی بات بھی غلط ہے اس طرح کی کوئی شہادت یا ثبوت نہیں کہ بھارت کی جانب سے کوئی آبی جارحیت ہوئی ہے اور مقبوضہ کشمیر میں کوئی ایسا ڈیم نہیں ہے جس سے پانی چھوڑا جاتا۔ انہوں نے واضح کیا بجلی کے ٹیرف میں کسی قسم کا کوئی اضافہ نہیں کیا گیا جہاں اضافہ کیا گیا وہاں دوسری جانب سے سرچارج فیول ایڈجسٹمنٹ و دیگر مد میں کمی کردی گئی ہے اس پر سینیٹرکامل علی آغا نے ان کو آڑھے ہاتھوں لیا اور ان کو حقائق چھپانے پر ہدف تنقید بنایا۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا وفاقی وزیر مان رہے ہیں 43پیسے کا اضافہ ہوا ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ میں کمی ہر صورت ہوتی تھی موجودہ حکومت آئی پی پیز کو فائدہ دے رہی ہے۔ اس پر خواجہ آصف نے بتایا ٹیرف میں ہونے والے اضافے کو سرچارج کم کرکے برابر کیا گیا ہے صارفین پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑا۔ گردشی قرضہ میں اضافہ کی وجوہات پوری ہونے میں ایک برس لگے گا اور انتظار کرنا پڑے گا۔ ایوان کی وساطت سے عوام کوبھی درخواست ہے صبر سے کام لیں دو سے تین برس میں معاملات بہتر ہوجائینگے چینی صدر کے آنے سے ہونے والے معاہدے تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں دھرنوں والے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ تو نہیں لے سکے تاہم ملکی معیشت کو اربوں روپے نقصان پہنچا دیا ہے ملک کی معیشت دھرنوں کے باعث کئی برس پیچھے چلی گئی ہے۔ سینیٹر محسن لغاری کی جانب سے سیلاب پر بحث کو بجلی کی صورتحال اور اس کے نرخوں کی جانب پھیرنے پر احتجاج کیا گیا ان کا کہنا تھا ان کی قرارداد سیلاب سے ہونے والی تباہی اور بحالی و امداد کی اقدامات پر تھی۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس آج صبح ساڑھے دس بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن