• news

پنجاب میں ہزار بیڈز کا کوئی سرکاری کینسر ہسپتال نہیں، مریض مرنے لگے

لاہور (ندیم بسرا) وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے نظرانداز کرنے کے باعث ملک میں آج تک سرکاری سطح پر 1 ہزار بیڈز کا کوئی بھی کینسر ہسپتال قائم نہیں ہوسکا۔ پنجاب کی دس کروڑ آبادی میں سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کے ہسپتالوں میں کینسر کے صرف 573 بیڈز ہیں اور کنسلٹنٹ کی تعداد 35 ہے جبکہ ہر برس 1 لاکھ 62 ہزار مریضوں کا اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے ہر برس ہزاروں مریض اس موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا فانی سے رخصت ہورہے ہیں۔ پاکستان میں کینسر کے آٹھ سرکاری ہسپتال ہیں جس میں اسلام آباد میں واقع نوری، ارنم پشاور، انمول لاہور، منار ملتان، بینو بہاولپور، کرن کراچی، اینور ایبٹ آباد اور میوہسپتال میں سینم شامل ہیں۔ لاہور کی ایک کروڑ سے زائد آبادی کے لئے صرف 11 کنسلٹنٹ ہیں اور 232 بیڈز ہیں جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں روزانہ 12 ہزار سے زائد مریض کینسر کی مختلف بیماریوں میں مبتلا علاج معالجے کے لئے آتے ہیں۔ میوہسپتال کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر شہریار نے لاہور میں 400 بیڈز پر مشتمل کینسر کیئر ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر میں یہ پاکستان کا سب سے بڑا ہسپتال ہوگا۔ تفصیلات کے مطابق میوہسپتال میں روزانہ 25 سو مریض آتے ہیں مگر یہاں کوئی بھی کنسلٹنٹ نہیں، حالانکہ یہاں 66 بیڈز موجود ہیں۔ جناح ہسپتال میں 25 سو کے قریب مریض آتے ہیں، 60 بیڈز ہیں اور 4 کنسلٹنٹ ہیں۔ انمول ہسپتال میں 100 بیڈز ہیں اور 6 ڈاکٹرز ہیں اور 45 سو کے قریب مریض یہاں آتے ہیں۔ شیخ زاید، سروسز، جنرل، چلڈرن اور گنگارام جیسے ٹیچنگ ہسپتالوں میں کینسر کے ڈاکٹرز موجود نہیں جبکہ یہاں روزانہ 5 ہزار سے زائد مریض اپنے علاج کے لئے آتے ہیں اور مایوس ہوکر لوٹ جاتے ہیں۔ پنجاب کے دیگر شہروں میں الائیڈ ہسپتال فیصل آباد میں 60 بیڈز ہیں اور 3 ہزار سے زائد مریض اپنے علاج کے لئے آتے ہیں اور یہاں ان کے علاج کے لئے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ نشتر ہسپتال ملتان 22 بیڈز اور 35 سو قریب مریض آتے ہیں ان کے لئے 1 کنسلٹنٹ موجود ہے۔ بہاولپور بینو ہسپتال 65 بیڈز پر مشتمل ہے، 5 سو مریض آتے ہیں ان کے لئے 2 ڈاکٹرز موجود ہیں۔ مینار ملتان ہسپتال 20 بیڈز کا ہے اور یہاں 5 سو مریضوں کے لئے 2 ڈاکٹرز ہیں۔ وفاقی حکومت ہر برس 80 کروڑ روپے سے زائد کینسر کے لئے مختص کرتی ہے جو ریسرچ اور مذکورہ ہسپتالوں کے لئے انتہائی کم ہے۔ اس کے ساتھ کینسر کی ادویات کے لئے حکومت نے سات کمپنیوں کو Cyclophosmamide اور Doxorubaicin اس جیسی دیگر ادویات درآمد کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر کوئی بھی اسے درآمد نہیں کررہا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غیر معیاری اور غیر درج شدہ ادویات پاکستان لائی جارہی ہیں جبکہ منافع خور اسے پانچ سے سات سو فیصد قیمت میں فروخت کررہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن