تحفظ پاکستان ایکٹ‘ داخلی سلامتی پالیسی اور کسی مسلمان کو کافر قرار دینا خلاف اسلام ہے : اسلامی نظریہ کونسل
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ اے ایف پی) اسلامی نظریہ کونسل نے مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر پر پابندی لگانے اور محرم الحرام سے قبل عظیم تر مذہبی ہم آہنگی پر زور دیا ہے۔ کونسل نے کہا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر اور سزائے موت کا مستحق قرار دینا غیراسلامی اور قابل مذمت ہے۔ مذہب کے نام پر ملک میں دہشت گردی اور تشدد اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ تمام مکاتب فکر ایسے واقعات سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔ تحفظ پاکستان ایکٹ اور قومی داخلی سلامتی پالیسی عبوری طور پر خلاف اسلام ہے۔ دشمنوں سے لڑنے والی فوج اسلحہ اور فوجی سازوسامان رعایا کے خلاف استعمال کرنا شریعت کے منافی ہے۔ کونسل نے اپنی سفارشات میں کہا ہے کہ نفرت انگیز تقاریر اور ان کی اشاعت پر پابندی لگائی جائے۔ کونسل کی یہ سفارشات محرم کے آغاز سے قبل جاری کی گئی ہیں۔ کونسل نے غیرمسلموں کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ انکی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کی قانون کے مطابق حفاظت کرے۔ یہ باتیں کونسل کے ضابطہ اخلاق میں کہی گئی ہیں جنہیں وہ پارلیمنٹ میں پیش کرنا چاہتی ہے۔ اسلامی نظریہ کونسل نے تحفظ پاکستان ایکٹ کو خلاف شرع قرار دیا اور کہاکہ مزید غور کیلئے آئینی، سیاسی اور دفاعی ماہرین کا جلد اجلاس بلانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے، قانونی و شرعی حیثیت کے تعین کے لئے دفاعی، سیاسی اور قانونی ماہرین سے مشاورت کی جائیگی۔ محمد خان شیرانی نے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان ایکٹ کو عبوری طور پر مسترد کرتے ہیں، بچوںکی سزا کا قانون بھی شریعت کیخلاف ہے ، اگرکوئی خاتون مرتد ہوجائے تو نکاح فسخ نہیں ہوگا، ازدواجی حیثیت پوری نہ ہونے پر نکاح فسخ کا اختیار ہے، 47ء سے 2009ء تک ہونے والے تمام ملکی و بین الاقوامی معاہدوں کے جائزہ کیلئے کمیٹی تشکیل دیدی ہے، مولانا طاہر اشرفی کے بارے میں ثبوت کے ساتھ کوئی رکن کونسل قرارداد لائے تو معاملے کا جائزہ لے کر صدر کو بھیج سکتے ہیں۔ اسلامی نظریہ کونسل کا 196 واں اجلاس چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں کتاب رمضان ماہ غفران، قانون فسخ نکاح بوجہ عدم ادائیگی نفقہ، فسخ نکاح ، حدود کے مقدمات میں خاتون جج کی تقرری، تحفظ پاکستان ایکٹ، قومی سلامتی کی پالیسی کا مسودہ، بچوں کو جسمانی سزا دینے کے امتناع کا بل 2014 ء و دیگر معاملات زیر بحث آئے۔ اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ ایس ایس پی اسلام آباد کی جانب سے ایک کتاب رمضان ماہ غفران کے حوالے سے تراشے بھیجے گئے ہیں۔ مصنف توہین رسالت کا مرتکب ہوا ہے بغور جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ کتاب میں کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ثابت ہو کہ توہین رسالت ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی شق 2 کی ذیلی شق iiکے مطابق کوئی خاوند اگر اپنی بیوی کو نان و نفقہ کی ذمہ داری پوری نہ کرے ، ازدواجی حیثیت پوری نہ کرے تو فسخ نکاح کی اجازت ہے اسی طرح اگر کوئی نامرد ہو جائے یا کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوا، ازدواجی ضروریات پوری نہ کرے، خاتون کو نکاح فسخ کی اجازت ہے اگر کسی شخص کو 7 سال قید کی سزا ہو جائے تو ایسی صورت میں خاتون نکاح کو فسخ نہیں کرسکتی مرد کی دوسری شادی پر پہلی بیوی کو نکاح فسخ کرنے کا اختیار نہیں۔ اگر کوئی لڑکی یا لڑکا کا نکاح چھوٹی عمر میں ہوجائے اور 18 سال کی عمر میں آکر وہ اس کو مسترد کردے تو اس کیلئے دیکھنا ہوگا کہ وجوہات کیا ہیں اگر والد یا دادا نے نکاح کرایا تو درست تصور ہوگا البتہ اگر نکاح میں خود غرضی، ونی، سورا کا عنصر موجود ہو تو فسخ نکاح کا اختیار حاصل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ ظالمانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہو تو ایسی صورت میں نکاح فسخ کا حق حاصل ہے۔ عورت مرتد ہونے پر نکاح ختم نہیں ہو گا البتہ اگر کوئی مرد مرتد ہوجائے تو نکاح ختم ہوجائیگا۔ خاتون جج یا قاضی نہیں بن سکتی۔ انہوں نے کہاکہ خاتون کی شہادت درست ہے البتہ حدود اور قصاص کے قانون میں قضاوت نہیں کراسکتی اس معاملے پر مزید تحقیق کیلئے کونسل کے شعبہ تحقیق کو ہدایت جاری کی ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس 2013ء ، تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس 2014ء اور تحفظ پاکستان ایکٹ 2014ء پر شرعی نقطہ نظر سے غور و خوض کے حوالے سے مولانا محمد خان شیرانی نے کہاکہ موجودہ قانون قومی داخلی سلامتی پالیسی کے تناظر میں مرتب کیا گیا ہے۔ حکومت کی قومی داخلی سلامتی پالیسی عبوری طور پر غیراسلامی ہے استبدادی سیاست کا عنصر واضح ہے اس لئے اس قانون کو عبوری طور پر مسترد کرتے ہیں البتہ اس پر مزید غور کیلئے جلد دفاعی، قانونی، سیاسی ماہرین کا اجلاس بلا کر مزید غور کرینگے۔ انہوںنے اسلامی بینک کاری کے ایشو کے حوالے سے صحافیوں کو بتایاکہ معاشی امور رپورٹ مرتب کی ہے معاشی فلفسے پر مضمون بھی مرتب کیا جسے کونسل اجلاس میں زیر بحث لایاگیا جس کے بعد اسے اتفاق رائے سے صدر، وزیراعظم، وزارت خزانہ اور سٹیٹ بنک کو بھیجا گیا ہے۔ سات سال کی عمر تک بچے کو کوئی سزا نہیں دی جا سکتی 10 سال کی عمر تک بھی بچے کی تربیت کیلئے صرف ہلکی سی جھاڑ کی اجازت ہے۔ 10 سال کے بعد کی عمر میں بھی ایسے تشدد کی اجازت نہیں جس سے جسم پر نشان پڑ جائیں والدین اور اساتذہ بچوں کی ترغیب و ترحید کیلئے سزاد یتے ہیں اس لئے یہ قانون خلاف شرع ہے۔
اسلامی نظریہ کونسل