صوبوں کو کے پی کی طرز پر انفارمیشن سسٹم بنانے کی ہدایت‘ عوام کو پانی بھی میسر نہیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ میں آئل وگیس کمپنیوں کی جانب سے متعلقہ علاقوں اور ڈسٹرکٹ سانگھڑ میں ترقیاتی کام نہ کرانے کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں تمام صوبوں کو خیبر پی کے کی طرز پر ایم آئی ایس (مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) بنا کر تمام ڈیٹا اس پر لوڈ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت دو ہفتوں تک ملتوی کر دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ اب یہ صوبوں کا کام رہ گیا ہے۔ عدالت کو تسلی ہو جائے کہ تمام کام بہتر طریقے سے اور عدالتی حکم کے مطابق ہو گا تو ہم آج ہی یہ کیس ختم کر دیتے ہیں یہ عوام کا پیسہ ہے جس کا بوجھ حکومتی بجٹ پر بھی نہیں ہے ہم ناامید نہیں اللہ تعالیٰ ایمان کی طاقت سے تمام مسائل حل کرتا ہے۔ کے پی کے نے رول ماڈل بنا دیا ہے عدالت ہر جگہ جا کر ترقیاتی کاموں کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو جو گائیڈ لائن دی گئی ہیں صوبے اس کے مطابق کام کریں۔ 612 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ آ چکے ہیں مگر معلوم نہیں یہ رقم کب خرچ ہو گی عوام کو پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ سڑکوں اور راستوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔ ٹنڈو آدم میں تیل وگیس کے بڑے ذخائر ہیں وہاں سڑکوں سے ٹینکرز گزرتے ہیں مگر سڑکوں کی ایسی خستہ حالت ہے کہ ایک موٹرسائیکل بھی بامشکل گزرتا ہے گذشتہ پچاس سال سے ترقیاتی کام نہیں ہوئے اب کے پی کے میں کچھ کام ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان میں ملک کی سب سے بڑی آئل فیلڈ ہے وہاں پانی کی طرح پیسہ آ رہا ہے مگر ترقیاتی کام وہاں بھی نہیں ہو رہے۔ پنجاب کی طرف سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے کام نہیں کرنا تو عدالت کو بتا دیں۔ کے پی کے کی جانب سے آئی ٹی کنسلٹنٹ نے رپورٹ پیش تو جسٹس جواد نے کہا کہ عدالت کو بھاری بھر کم کاغذات کی فائلیں نہ دیں عدالت کے پاس انہیں پڑھنے کا وقت نہیں۔ آئی ٹی کنسلٹنٹ نے ای میل پر رپورٹ کھول کر عدالت کو دکھائی اور اس کا کلر فل چارٹ بھی پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس میں ابھی دس فیصد ڈیٹا فیڈ کیا گیا ہے باقی بھی جلد ہو جائے گا۔ گیلانی عدالتی معاون نے کہا کہ عدالت کے ایکشن پر یہ کام ہو رہا ہے وگرنہ حکومت نے کوئی کام نہ کرنا تھا۔ اگر عدالت کیس ختم کرے گی تو تمام کام ٹھپ ہو جائے گا۔ کے پی کے کے آئی ٹی کنسلٹنٹ کو ہدایت کی کہ وہ دیگر صوبوں کی بھی ایم آئی ایس پروگرام بنانے میں مدد کریں۔