طاہر القادری کا اقدام خوش آئند ہے امید ہے عمران بھی جلد دھرنا ختم کر دینگے: ارکان سینٹ
اسلام آباد(نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سینٹ کے اجلاس میں متعدد ارکان نے عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی جانب سے دھرنا ختم کرنے کو خوش آئند قرار د یتے ہوئے کہا کہ ابھی بحران ٹلا نہیں ہے، جمہوریت کیلئے ابھی خطرہ موجود ہے، امید ہے کہ عمران خان بھی جلد دھرنا ختم کر دیں گے۔ سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے دھرنے کا خاتمہ خوش آئند ہے۔ سینٹ اور چھوٹے صوبوں کو اہمیت دی جائے ورنہ سازشیں تو اب بھی ہو رہی ہیں، جمہوریت کے لئے خطرہ ابھی بھی موجود ہے، ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، سینیٹر حاجی محمد عدیل، سینیٹر زاہد خان، سینیٹر ہیمن داس، سینیٹر ہری رام، سینیٹر امرجیت، سینیٹر باز محمد خان اور سینیٹر عبدالنبی بنگش نے تحریک التوا پیش کی جس میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ خیبر پی کے میں سکھ برادری کے دو افراد کے قتل سے اقلیتی برادری عدم تحفظ کا شکار ہیں، یہ ایک اہم قومی اہمیت کا معاملہ ہے اس لئے معمول کی کارروائی روک کر اس پر بحث کی جائے، اب اس پر بحث پیرکو ہو گی، سینیٹر سعید غنی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ سردی شروع ہو گئی ہے، آئی ڈی پیز کو مشکلات کا سامنا ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو آئی ڈی پیز کی مشکلات کے خاتمہ کے لئے مل کر اقدامات کرنے چاہئیں، سینیٹر حاجی غلام علی نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) حکومت کی اتحادی ہے، 16 ماہ گزر گئے ہیں، ابھی تک ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہیں ملے۔ انہوں نے کہا کہ قائد ایوان راجہ ظفر الحق یہ معاملہ وزیراعظم تک پہنچائیں۔ سینیٹر حافظ حمد اللہ نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بلوچستان میں سابق صوبائی حکومت پر بد امنی، کرپشن اور بدعنوانی کے الزامات تھے، صوبے میں اب بھی امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طاہر القادری کی طرف سے دھرنے کے خاتمہ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں، طاہر القادری لوگوں کے لئے کفن لائے تھے اب وہ اس کفن کا خود سوٹ سلوا کر نماز کے دوران پہنا کریں، سینیٹر کلثوم پروین نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ انتخابی اصلاحات کیلئے ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کی گئی ہے اس کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں سے تجاویز لی جانی چاہئیں تاکہ انتخابی اصلاحات پر سب کو اعتماد ہو۔ ڈاکٹر القادری نے دھرنا ختم کر دیا ہے، اب اس پر طنز کے تیر نہیں برسانے چاہئیں بلکہ ان کا خیر مقدم کرنا چاہیے، یہ خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے انتخابی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے۔ سینیٹر عبدالرئوف نے کہا کہ امن و امان کو بہتر بنانے کیلئے جو بھی تجاویز دینا چاہتے ہیں ان کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ سینیٹر چوہدری شجاعت حسین نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پارلیمانی اصلاحات کمیٹی میں صرف ارکان پارلیمنٹ کی نمائندگی ہے، پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتوں کو بھی اس میں نمائندگی دی جائے۔ پارلیمانی اصلاحات کمیٹی کا چیئرمین کوئی وزیر نہیں ہونا چاہیے بلکہ سینٹ یا قومی اسمبلی کا ممبر اس کا چیئرمین ہونا چاہیے۔ سینیٹر زاہد خان نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پشاور پریس کلب کے صدر کے سسر کو قتل کر دیا گیا ہے، قاتلوں کو گرفتار کیا جانا چاہیے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم سومرو نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ شکارپور میں 132 کے وی کے گرڈ سٹیشن پر دو سال سے کام رکا ہوا ہے، 80 فیصد مکمل ہو چکا ہے، عوام کو مسائل کا سامنا ہے، منصوبے پر بقایا کام جلد مکمل کیا جائے۔ سینیٹر الیاس احمد بلور کے توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل جام کمال خان نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں ایک ڈیڑھ ماہ سے کم ہو رہی ہیں، پچھلے مہینے تیل کی قیمت 99 ڈالر فی بیرل پر تھیں جبکہ آج تقریباً 83 ڈالر فی بیرل ہے، اس قیمت میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا۔ یکم اکتوبر کو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی تھی، ہم نومبر میں بھی مزید کمی کی توقع کر رہے ہیں۔ دریں اثناء دو قائمہ کمیٹیوں کی رپورٹ ایوان بالا میں پیش کر دی گئی،گیس چوری کی روک تھام اور وصولی بل 2014ء پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ سینٹ میں پیش کر دی گئی۔ علاوہ ازیں مدارس کو بین الاقوامی فنڈنگ سے متعلق وزیر دفاع کا جواب نہ ملنے پر اپوزیشن نے شدید احتجاج اور واک آئوٹ کیا۔ صغریٰ امام نے کہا کہ 10ماہ سے پوچھ رہے ہیں کن مدارس کو کن ممالک سے فنڈنگ ملتی ہے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں مل رہا۔ وزیر مملکت داخلہ نے کہا کہ اس حوالے سے جواب جلد پیش کر دیا جائیگا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ حکومت ایوان کو اہمیت نہیں دیتی۔ وزرا ایوان کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ راجہ ظفرالحق نے کہا کہ وزرا کا ایوان میں نہ آنا پیچیدہ معاملہ ہے۔ میں وزرا سے اجلاس میں شرکت کی بات کرونگا۔ یقین دہانی کراتا ہوں کہ آئندہ اجلاس میں وزرا آئیں گے پھر بھی وزراء اجلاس میں شرکت نہیں کرتے تو میں اپوزیشن کے ساتھ واک آؤٹ کرونگا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے تحریری جواب میں بتایا گیا کہ اسلحہ لائسنس پابندی میں نرمی کر کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور ان کے بیٹے کو لائسنس جاری کیا گیا۔ سابق چیف جسٹس اور ان کے بیٹے کو ممنوعہ اور غیر ممنوعہ بور کے ہتھیاروں کے لائسنس جاری کئے گئے۔ سابق چیف جسٹس اور ان کے خاندان کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اپوزیشن نے وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر سیفران کی طرف سے وزارت دفاع سے متعلق سوال کا جواب سننے سے انکار کردیا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ وزیر دفاع کی جگہ وزارت دفاع سے متعلق سوال کا جواب وفاقی وزیر سیفران دے رہے ہیں۔ وزیر دفاع کو خود یہاں ہونا چاہیے۔ سینیٹر زاہد خان‘ سینیٹر الیاس احمد بلور اور دیگر اپوزیشن ارکان نے اس پر احتجاج کیا۔ جس پر چیئرمین نے وزارت دفاع سے متعلق سوالات موخر کر دیئے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے بتایا کہ اسلام آباد میں تین روٹس پر سی ڈی اے کے ذریعے بس سروس چلانے کا منصوبہ روک کر میٹرو بس منصوبہ شروع کیا گیا ‘ میٹرو منصوبہ دھرنوں کی وجہ سے ایک ماہ کی تاخیر سے 31جنوری 2015 کو مکمل ہوگا ‘ وزیراعظم نواز شریف اس کا افتتاح کریں گے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ میٹرو بس منصوبے پر لگائے جانے والے سرمائے سے 5000 بسیں خریدی جاسکتی تھیں جو ملک بھر میں چلتیں۔ وزیر مملکت نے بتایا کہ کم عمر بچوں و بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی قابل مذمت جرم ہے۔ اسلام آباد میں گرین ہائوسز درجہ حرارت کنٹرول کرنے اور سبزیوں و پھلوں کی قلت دور کرنے کے لئے چھوٹے کسانوں کو مفت فراہم کئے گئے۔ سینٹ کو بتایا گیا کہ پچھلے پانچ سال کے دوران سول ڈیفنس کے محکمہ میں 70 رضاکار تعینات کئے گئے۔ علاوہ ازیں 30 سے 40 سال کی عمر کی عورتوں کی شادی سے متعلق بیان پر اپوزیشن ارکان اور ایوان میں موجود حکومتی اور اپوزیشن بنچوں پر موجود تمام خواتین ارکان نے واک آؤٹ کیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ نے ہدایت کی کہ دینی مدارس کو اسلامی ممالک سے مالی امداد ملنے سے متعلق سوال کا جواب رواں سیشن کے دوران دیا جائے، سینیٹر صغریٰ امام‘ سینیٹر رضا ربانی‘ سینیٹر زاہد خان اور سینیٹر سعیدہ اقبال کے احتجاج کے بعد ڈپٹی چیئرمین نے وزیر مملکت برائے داخلہ کو ہدایت کی کہ رواں سیشن کے دوران ہی جواب دیا جائے۔ علاوہ ازیں سینٹ میں ارکان دھرنا ختم ہونے پر عوامی تحریک پر طنز کے نشتر چلانے سے گریزاں رہے، دھرنوں کی وجہ سے معیشت کے زمین بوس ہونے اور بعض منصوبہ جات کی تاخیر پر بات کی گئی لیکن انقلاب جاتا دیکھنے کے باوجود ارکان نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا اور دھواں دھار طنزیہ تقاریر سے گریز کیا۔ سوالات کے جواب نہ آنے اور وزراء کی عدم موجودگی پر ارکان سینٹ نے احتجاج کیا۔