وفاداری ،بشرط استواری
قبولِ اسلام کے ساتھ ہی حضرت عمر ابن خطاب ،نبی کریم ؐکی توجہات اور تربیت سے فیض یا ب ہونے لگے اور حضور اکرم ؐ کے مقر بین خاص میں شامل ہوگئے۔ اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کی محبت آپکے رگ وپے میں سرایت کرگئی اور آپ اس جذبہء محبت کو درجہ کمال تک پہنچانے کے متمنی رہتے۔ ’’حضرت عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم حضور سید عالم ؐکے ہمراہ تھے اور آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔(اس التفاتِ خاص سے فائدہ اٹھا کر )حضرت عمر ؓنے (اپنی قلبی کیفیات کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے ) عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ قرار پائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔ (اب) حضرت عمرؓ نے( اپنی کیفیت کو محسوس کیا تو بے ساختہ )عرض کیا۔ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہوگئے ہیں۔ ارشادہوا ہے : عمر اب تمہارا ایمان درجہ کمال پرپہنچ گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ نے تربیت وتزکیہ کے بہت سے پہلو آشکار کیے ہیں ۔ حضرت عمرؓ دن رات رسول اللہؐ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کر رہے تھے، اوصاف وکمالات کے مشاہدے میں تھے،اپنے ظاہر وباطن کی تبدلیاں بھی انکے پیش نظر تھیں اس لیے موقع پاتے ہی انھوں نے محبت کا درجہ کمال بھی طلب کرلیااور اس صاحبِ تعلیم وتزکیہ نے فوراً ہی انکے جذبہء تسلیم واخلاص اور خود سپردگی کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا ۔اسی کیفیت کا اعجاز تھا کہ حضرت عمرؓ کو لمحہ لمحہ نبی کریم ؐرضا ء کا خیال رہتا ۔ آپکے مفادات کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔ آپکی پسند کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ۔ حضرت جابر ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک بار جناب رسول اللہ ؐ کی خدمت عالیہ میں خوبصورت اور قیمتی قبا بطور ہدیہ ء پیش کی گئی۔ آپ نے اسے زیبِ تن فرما لیا۔ مگر فوراً ہی اسے اتار دیا اور فرمایا:کہ اسے عمر کو دے آئو،آنجنابؐ سے اس قبا کو فوراً اتا ر دینے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے جبرئیل امین نے اسے پہننے سے روک دیا تھا۔ یہ بات حضرت عمرؓ تک پہنچی (تو بڑے پریشان ہوئے ،کہ جس چیز کو آپ نے ناپسند کیا ،اسے میری طرف بھیج دیا یقینا مجھ سے کوئی فروگذاشت ہوئی ہے)روتے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،عرض کیا :یا رسول اللہ ! جس قبا کو آپ نے خود ناپسند کیا ، وہ مجھے عنایت فرمادی ، اب میری لیے کیسے ممکن ہے کہ آپکی مبغوضہ چیز کو پہن لوں، فرمایا: یہ قبا میں نے تمہیں استعمال کیلئے نہیں دی بلکہ اس لیے دی ہے کہ اسے بیچ دو (یہ سن کر آپکے قلب مضطرب کو تسلی ہوئی ،حضور کی ناراضگی کا اندیشہ ختم ہوا)اور آپ نے اسے دوہزار درہم میں فروخت کردیا۔ رسول اللہ ؐ کی نگاہ نے چونکہ آپ کو ’’فاروق‘‘بنادیا تھا، لہٰذا آپکے جذبہ محبت رسو ل میں ’’غیرت ‘‘کا پہلو بہت ہی نمایاں تھا۔ممکن نہیں تھا کہ کوئی مرتکب توہین وتنقیص آپکی گر فت میںآئے اور کیفر کردار تک نہ پہنچے۔