طاہر القادری کا جلسہ ۔۔۔۔سیاسی سرگرمیاں عروج پر
راجہ منیر خان
اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے بعد ملکی سطح پر سیاست بڑی گرم ہے۔ جس کے اثرات ہزارہ ڈویژن اور ایبٹ آباد میں پائے جا رہے ہیں 23اکتوبر کو علامہ طاہر القادری کے جلسے کے بعد مزید تیزی آئے گی۔ ایبٹ آباد کے کالج گراﺅنڈ میں پاکستان عوامی تحریک کا جلسہ 23اکتوبر کو ہونے جا رہا ہے جس کی تیاریاں عوامی تحریک کی مقامی قائدین کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن انہیں عوام میں اتنی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی وجہ سے انہیں خاطر خواہ فائدہ ہو گا یوں تو ہزارہ مسلم لیگ کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن آئے روز مسلم لیگ کی تقسیم کے باعث اور ہزارہ کی قیادت کی آپس میں دھڑے بندیوں کے باعث ہزارہ میں مسلم لیگ کی ساکھ بہت متاثر ہوئی ہے۔ الیکشن 2013ءمیں یوں تو مسلم لیگ کو ہزارہ میں سیٹیں اس حساب میں پھر بھی زیادہ ملی ہیں لیکن ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں کہ وہ جس جماعت میں بھی ہوں وہ کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ہزارہ میں مسلم لیگ کا گراف کافی نیچے آیا ہے۔ دوسرا مسلم لیگی ممبران اسمبلی کی درست پالیسیاں نہ ہونے اور ان اقتدار پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کو نوازنے کی وجہ سے بھی مسلم لیگ کے لئے جان دینے والے کارکن پارٹی سے دلبرداشتہ ہو کر کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ممبران اسمبلی پارٹی کارکنوں کو نظر انداز کرتے ہیں بلکہ ان سے اچھے طریقے سے ملتے تک نہیں ہیں جس سے پارٹی کی جڑیں جوان کارکنوں کی وجہ سے عوام میں ہوتی ہیں وہ ختم ہوتی جا رہی ہیں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی مرتضیٰ جاوید عباسی کے اپنے حلقہ میں تو بھر پور رابطے ہیں لیکن پارٹی کارکنوں میں ان کے رابطے اس طرح نہیں ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر سردار اورنگزیب قلوٹھہ کا پارٹی کارکنوں سے ضرور رابطہ ہے لیکن پارٹی کے ضلع کے سینئر لیڈران کا رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے رابطے کے فقدان کے باعث برآنے والے دن میں مسلم لیگ ایبٹ آباد میں کمزور ہوتی جا رہی ہے جس کی مثال الیکشن 2013ءہیں۔ کہ مسلم لیگ ن نے ایک قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتی ہیں۔ رابطوں کا سلسلہ اگر اسی طرح منقطع رہا اور ممبران اسمبلی اور مرکزی قیادت اسی طرح کوام سے دور رہی تو آئندہ اس سے بھی مشکل حالات پیدا ہونگے کیونکہ مرکزی سطح پر تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے فضاءتبدیل ہو رہی ہے ۔ اور اب 23اکتوبر کو پاکستانی عوامی تحریک بھی جلسہ کرنے جا رہی ہے اور وہ بھی آئندہ کے انتخابات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔23اکتوبر کے جلسہ سے پاکستان عوامی تحریک کے قائد علامہ طاہر القادری سمیت ق لیگ کی بڑی قیادت چوہدری پرویز الٰہی اور دیگر بھی شریک ہونگے۔ اس لئے آئندہ مسلم لیگ کے لئے مزید مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ گورنر سردار مہتاب احمد خان پارٹی کو بہتر بنانے کے لئے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن وزیرستان میں آپریشن کے باعث اور ملکی سیاسی حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ بھی اپنے کارکنوں سے مکمل طور پر رابطے سے کٹ کردہ گئے ہیں جس سے پارٹی کارکنوں میں مزید بے چینی پائی جا رہی ہے مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود کارکنوں کے کام نہیں ہو رہے ہیں جس سے پارٹی کارکن اور ضلع ایبٹ آباد کے عوام سخت پریشان ہیں صوبائی وزیر مشتاق احمد غنی اور قلندر لودھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکنوں اور شہریوں سے بھر پور رابطے میں ہیں۔ جس سے انہیں خاطرہ خواہ پذیرائی مل رہی ہے۔ مسلم لیگ نے اگر کم بیگ کرنا ہے تو مرکزی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ میگا منصوبے صرف اخباری بیانوں کے ذریعے نہیں عمل طور پر لانے ہونگے جن میں سے اہم ایک ایکسپریس ایبٹ آباد میں یونیورسٹی کے قیام ایبٹ آباد بائی پاس جیسے منصوبے شروع کرانے ، سڑکوں کی خستہ حالی کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنا ہو گا تب جا کر آئندہ خواہ بلدیاتی انتخاب ہو یا قومی انتخاب تو مقابلہ کر سکے گی۔ بصورت دیگر انہیں شکست سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ کیونکہ تحریک انصاف کے قائدین نے جس طرح عوام سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ اور وہ صوبائی حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے ترقیاتی کام بھی کر رہے ہیں ان کے قدم مضبوط ہوتے جا رہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے خلاف جو سازش ملکی سطح پر ہو رہی ہے ان سازشوں کے مقابلے کے لئے کارکنوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ تب کامیابی ممکن ہے۔