دیوالی روشنی کا تہوار
جی این بھٹ
دیوالی ہندو مذہب کے بڑے تہواروں میں سے ایک ہے۔ اسکے منانے کیلئے مختلف روایات قدیم ہندو اساطیر میں درج ہیں۔ یہ تہوار کاتک کی 15 تاریخ کو منایا جاتا ہے۔ ایک روایت کے مطابق یہ تہوار کارتک دیوتا کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ اس روز ہندو مرد و زن کسی ندی یا دریا پر جا کر اشنان کرتے ہیں، رات کو دیّے جلا کر چراغاں کرتے ہیں اور دولت کی دیوی لکشمی کی پوجا ہوتی ہے۔ کہتے ہیں جو گھر جتنا آراستہ و پیراستہ ہو گا وہاں لکشمی زیادہ خوشی محسوس کرے گی اور وہاں سارا سال خوشحالی رہے گی۔ مرد حضرات اس رات اس امید پر جوا¿ کھیلتے ہیں کہ جو جیتے گا وہ سارا سال مالی طور پر خوشحال رہے گا۔ اسی طرح قدیم اساطیر کے مطابق اسی روز شری کرشن کی بیوی سیتا بھاما نے اس دور کے ایک بڑے راکھسش کانر کاسر کو مارا تھا اس کی خوشی میں ہندو نہا دھو کر گھر کو صاف پوتر کر کے چراغاں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ ہر گھر میں خصوصی رنگوں سے پھول بناتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور روایت کے مطابق یہ دن راجا رام چندر جی کے 12 برس کے بن باس کے بعد اپنی راجدھانی میں واپسی کی خوشی کی یاد میں منایا جاتا ہے جب وہ اپنے بھائی لکشمن اور بیوی سیتا کے ساتھ گھر واپس آئے اور بعد ازاں اسی دن راون کو مار کر سیتا کو واپس حاصل کیا تھا۔ اس وقت بھی ساری رعایا نے اپنے گھروں پر چراغاں کر کے خوشی کا اظہار کیا تھا اور اس رات لکشمی پوجا ضرور ہوتی ہے۔ جنوبی ہند میں یہ دن یا تہوار وشنو جی کی بدی کی قوتوں پر فتح کی یاد میں مناتے ہیں۔ کالی ماتا کے دشمنوں اور راکھسشوں پر فتح کی یاد میں منایا جاتا ہے اور جانوروں کی بَلی چڑھائی جاتی ہے۔ گھروں میں رنگ و روغن ہوتا ہے، پھول پتیاں بنائی جاتی ہیں۔
اس روز ہندو برادری جہاں بھی ہو اس روز نئے کپڑے پہنتی ہے، مٹھائیاں بنا کر تقسیم کر کے اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ روشنی کا یہ تہوار ہندومت، جین مت اور سکھ برادری میں یکساں ذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ رات کو چراغاں کے ساتھ آتش بازی، پٹاخے، پُھلجڑیاں اور انار کے پھٹنے کا منظر چارسُو رنگ بکھیر دیتا ہے۔ نظیر اکبر آبادی نے اس موقع پر ایک خوبصورت نظم کہی جس کے چند اشعار پیش ہیں
ہر ایک مکان میں جلا پھر دیّا دیوالی کا
ہر ایک طرف کو اُجالا ہوا دیوالی کا
مٹھائیوں کی دکانیں لگا کے حلوائی
پکارتے ہیں کہ! لالہ دیوالی آئی
مکان لیپ کے ٹھلیاں جو کوری رکھوائی
جلا چراغ تو کوڑی وہ جلد جھنکائی
خوشی سے خود اُچھل کر پکارے! او بھائی
شگن پہلے کرو تم ذرا دیوالی کا
کسی نے گھر کی حویلی گرو رکھا ہاری
کسی نے گٹھڑی پڑوسن کی اپنی لا ہاری
یہ ہار جیت کا چرچا بڑا دیوالی کا
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہندو برادری جہاں بھی رہتی ہے یہ تہوار نہایت دھوم دھام سے مناتی ہے۔ کراچی، حیدر آباد، سانگھڑ، سکھر، شکار پور، جیکب آباد، پنڈی، پشاور، مچھ، سبی، گھارو، کوئٹہ اور لاہور کے مندروں میں اس روز بڑے بڑے پوجا کے اجتماعات ہوتے ہیں جن میں ہندو برادری کے مرد و زن اور خاص طور پر بچے نہایت ذوق شوق سے شرکت کرتے ہیں اور مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور رات کو گھروں اور مندروں پر خوب چراغاں ہوتا ہے۔ کراچی میں سوامی نارائن مندر اور لاہور میں بالمیک سوامی اور کرشنا مندر میں خوب رونق ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے اس موقع پر ہجر کے دردکو واضح کرتے ہوئے کہا ہے
تیرے بِنا جب آئی دیوالی
دیپ نہیں دل جلے ہیں خالی
اسی طرح ایک اور شاعر اپنے سے دوری کو یوں بیان کرتے ہیں
آئی دیوالی آئی دیوالی
دیپک سنگ ناچے پتنگا
میں کس کے سنگ ناچوں بتا جا
اس تہوار کے موقع پر سونے کے زیورات کی مانگ بڑھ جاتی ہے اور ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں سونے کی قلت پڑ جاتی ہے صرف سونا ہی نہیں اس روز مٹی کے دیّے، آتش بازی کا سامان، رنگ اور پھول فروخت کرنے والوں کی بھی چاندی ہوتی ہے اور وہ خوب کماتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور اور دیگر شہروں و دیہات میں دیوالی کا رواج تقریباً معدوم ہو گیا ہے مگر جہاں بھی ہندو برادری کے لوگ موجود ہیں وہ اپنا یہ تہوار دھوم دھام سے مناتے ہیں اور مندروں میں پوجا کے بعد پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔