• news

ممکن ہے بعض اداروں کو قربانی دینا پڑے‘ وزیراعظم نااہلی کیس : صادق اور امین کا فیصلہ ہو جانا چاہیے‘ پوری اسمبلی بھی فارغ ہو جائے تو پرواہ نہیں : سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت)وزیراعظم محمد نواز شریف کو نا اہل قرار دینے کے لئے دائرآئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فریقین تحریک انصاف کور کمیٹی کے رکن اسحاق خاکوانی، ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین اور سینئرنائب صدر وکلاءفورم پی ٹی آئی پنجاب ایڈووکیٹ گوہر نواز سندھو سے کہا ہے کہ وہ تحریری طور پر عدالت میں جواب جمع کرائیں کہ انہوں نے مقدمہ میں درخواست انفرادی طورپر پر جمع کرائی ہے ےا پارٹی کی جانب سے؟ عدالت نے قرار دےا کہ آرٹیکل 62/63 کی آئینی تشریح ضروری ہے کیونکہ ابھی بلدےاتی اور جنرل انتخابات ہونا ہیں عدالتی فیصلہ مستقبل کے لئے مثال سیٹ کرے گا جس کا اطلاق سب پر ہوگا کوئی شخص اسمبلی کے اندر ہویا باہر قوم کے ساتھ حق اور سچ بولنا ہر ایک کا فرض ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا یہ کہنا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی نوعیت کا ہے اور ہائی کورٹ کو اس بارے اختیار سماعت حاصل نہیں جبکہ ہماری نظر میں یہ سیاسی سوال نہیں بلکہ قابل جواز کیس ہے، ہم نے کیس کی سماعت کر کے فیصلہ سنانا ہے ہم کو کیس کے فیصلے سے پیدا ہونےوالے نتائج کی پرواہ نہیں چاہے ایک رکن اسمبلی فارغ ہو یا آدھی اسمبلی فارغ ہو جائے، اس سے قطع نظر کہ کوئی پارلیمنٹ کے اندر ہے یا کوئی باہر ہوجائے، قوم سے سچ بولنا اور حق کی بات کرنا ہر فرد کی ذمہ داری ہے، سچ کیا ہے اس کا معیار مقرر کرنا پڑے گا، عوامی نمائندوں کو اس معیار پر پورا اترنا ہوگا۔ اگر عوامی نمائندوں کے صادق اور امین ہونے کے اصول پر عملدرآمد شروع ہوجائے تو شاید پارلیمنٹ کی موجودہ نشستوں کے لئے آدھے امیدوار بھی نہ مل سکیں، میں نے ضروری سمجھا کہ میں کیس کی سماعت کے لئے موزوں نہیں تو اس سے الگ ہو جاﺅں گا۔ عدالت میں یہ معاملہ طے نہ ہوا تو بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ ملک میں مڈٹرم یا پانچ سال بعد الیکشن ہوں بلدیاتی الیکشن تو قریب ہی ہیں۔ خیبر پی کے میں 15 نومبر کو ہورہے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کا تو کوئی پتہ نہیں کب ہوں گے اس کے لیے کوئی نہ کوئی تو طریقہ کار واضح ہونا چاہیے ان الیکشن میں بھی جھگڑے اٹھیں گے کوئی کسی کو اور کوئی کسی کو کہے گا کہ یہ صادق اور امین نہیں اور دوسرا صادق اور امین نہیں فیصلہ کی صورت میں کوئی نہ کوئی نظیر سامنے آنی چاہیے، ہم جو فیصلہ بھی کریں گے پھر تمام ماتحت عدالتیں اس پر عمل کر نے کی پابند ہوں گی۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ میں نتائج کی پرواہ نہیں ہم سن کر فیصلہ کریں گے۔ جسٹس خواجہ نے کہا کہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ آرٹیکل66 آرٹیکل 62اور63کے تابع ہے، ہمیں نہیں پتہ کہ کیا ہونے جا رہا ہے لیکن کچھ بھی ہو عدالت کو فیصلہ کر نا پڑے گا۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم پر اعتماد ہے کوئی کہتا ہے کہ ہم پر اعتماد نہیں میں نے تو پہلے دن ہی ایڈووکیٹ سندھو کو کہا تھا کہ آپ بتا دیں کہ اپ کو ہم پر اعتماد ہے یا نہیں اگر فٹ نہیں ہوں تو سائیڈ پر ہو جاﺅں گا، تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم کو آپ پر اعتماد ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم کو بھی آپ پر اعتماد ہے۔ ایڈووکیٹ سندھو نے کہا کہ اب یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کن کن لوگوں نے اسمبلی میں جانا ہے اور ان باتوں کو عدالتی فیصلے کے ذریعے طے کیا جائے گا جسٹس خواجہ نے کہا کہ اگر یہ بات یہاں پر طے نہ ہوئی تو بڑا مسئلہ پیدا ہو گا کہ کس طرح کے لوگوں نے اسمبلی میں بیٹھنا ہے۔ جب ہم اس کیس کو سنیں گے تو پھر ثبوتوں کے ساتھ معاملہ آگے بڑھائیں گے۔ آٹھ دس دن یہ کیس دوبارہ سماعت کے لیے لگ جائے گا۔ آئی این پی کے مطابق جسٹس جواد خواجہ نے کہا کہ عدالت ارکان اسمبلی کے صادق اور امین ہونے کی شرط سے متعلق درخواست پر فیصلہ ضرور دے گی۔ آدھی اسمبلی بھی فارغ ہوجائے تو ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ آن لائن کے مطابق جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ بلدیاتی انتخابات عدالتی نہیں آئینی و قانونی تقاضا ہیں، امید ہے کہ جلد ہو جائیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ صادق اور امین کے حوالے سے اب فیصلہ ہو جانا چاہیے، ممکن ہے کہ عدالت کو 18 کروڑ عوام کو ہی صادق و امین کی سند جاری کرنا پڑے۔ سپیکر نے کہا ہے کہ سماعت کا اختیار عدالت کے پاس ہے، عدالت کہتی ہے کہ اسے اختیار سماعت نہیں تو پھر اس کافیصلہ کون کرے گا۔ دو ممبر دس ممبر یا پھر پوری اسمبلی اس فیصلے سے فارغ ہو جاتی ہے یہ ہمارا درد سر نہیں ہے ہم نے آئین و قانون کے مطابق فیصلہ دینا ہے۔ ہم جو فیصلہ کریں گے ہو سکتا ہے کہ بعض اداروں کو قربانی دینا پڑے۔ 18 ویں ترمیم میں ارکان پارلیمنٹ کی نا اہلی کا اختیار سپیکر سے لیکر عدالت کو دے دیا گیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس جواد نے کہا کہ الیکشن چاہے مڈٹرم ہوں یا جنرل آج ہوں کل ہوں یا مقررہ مدت پر، عدالت کو فکر نہیں فکر ہے کہ جب بھی انتخابات ہوں گے یہ جھگڑے اٹھیں گے کہ فلاں صادق نہیں، فلاں امین نہیں۔ نجی ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ صادق اور امین کی تعریف کا تعین کرے گی۔ طے کیا جائے گا کہ منتخب اداروں میں کیسے لوگوں نے بیٹھنا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن