سینٹ : بھارت سے آمدورفت کے لئے سرحد کھولنے کا فیصلہ ایوان کرے، احترام کریں گے: وزیر دفاع
اسلام آباد (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) سینٹ کے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ بھارت سے آمدورفت کے لئے ایوان کوئی بھی سرحد کھولنے کا فیصلہ کرے تو حکومت اس کا احترام کرے گی۔گذشتہ روز اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سوالات کے جوابات دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ سرحدوں کا دفاع فوج کی ذمہ داری ہے تجارتی راستوں، بندرگاہوں کا انتظام فوج نہیں کر رہی ہے۔سابق وفاقی وزیر قانون مولا بخش چانڈیو کی جانب سے سندھ میں بھی پاکستان بھارت سرحدوں پر آمدورفت کی رعایتیں ہونا اور راستے کھلنے چاہئیں کے بارے میں سوال پر خواجہ آصف کا کہنا تھا ایوان میں اس حوالے سے متضاد آراء موجود ہیں تاہم اگر ایوان نے ان سرحدوں کو کھولنے کا فیصلہ کرنا ہے تو حکومت اس فیصلے کا احترام کرے گی۔ ایوان پاکستان بھارت سرحد کو آمدورفت کیلئے کھولنے کا فیصلہ کرے۔ حکومت کو سرحد کھولنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سعید مندوخیل نے کہا کہ وہ واقعہ کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ ہماری تمام ہمدردیاں ان کے ساتھ ہیں۔ فرحت بابر نے کہا کہ خیبر پی کے میں دہشت گردوں کے خلاف تو ہم جنگ لڑ رہے ہیں مگر جنوبی پنجاب کے دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کرتے۔ حاجی عدیل نے کہا کہ یہ افسوسناک واقعہ ہے ہم تو دھماکوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ پہلے قوم پرستوں پر سیکولر جماعتوں پر حملے کئے جاتے تھے مگر اب تو مذہبی جماعتوں پر بھی حملے ہونے لگے ہیں۔ زاہد خان نے کہا کہ واقعہ افسوسناک ہے۔ ڈاکٹر عبدالرئوف نے کہا کہ کوئٹہ واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ کامل علی آغا نے کہا کہ سینٹ میں وزیر داخلہ آئیں اور بتائیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کوئٹہ حملے کو پاکستان کی سیاسی قیادت پر حملہ قرار دیا ہے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ کوئٹہ میں ہونے والے دونوں واقعات قابل مذمت ہیں۔ ملک میں سکیورٹی کے حوالے سے مستقل بحث ہونی چاہئے۔ ظفرالحق نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ سینٹ سکیورٹی ادارے ان کیمرہ بریفنگ دیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے قوم کے نمائندوں کے سامنے آنا چاہئے۔ سینٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین صابر بلوچ کی زیرصدارت ہوا جس میں مولانا فضل الرحمن پر خود کش حملے کی مذمت کی گئی جبکہ ایم کیو ایم نے خورشید شاہ کے بھائی پر احتجاج کیا اور علامتی واک آئوٹ کیا۔ پی پی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن پر پہلی مرتبہ حملہ نہیں ہوا فضل الرحمن پر حملہ ہماری غیرواضح پالیسی کا عکس ہے۔ بندوقوں کا رخ افغانستان کی جانب کرنے کے طالبان کے بیان پر حکومت کا ردعمل نہیں آیا۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا انٹیلی جنس شیئرنگ کا فقدان نظر آتا ہے۔ حملے کے لئے کوئٹہ کا انتخاب کیا گیا۔ بلوچستان کو غیرمستحکم کیا جا رہا ہے۔ کوئٹہ دھماکے سازش کا حصہ ہے جس کا مقصد بلوچستان کو غیرمستحکم کرنا ہے۔ کامل علی آغا نے کہا حکومت ان واقعات پر ایوان کو اعتماد میں لے اور رپورٹ دے ایم کیو ایم کے سینیٹر طاہر مشہدی نے کہا دہشت گردوں کو چن چن کر مارنا ہو گا۔ انٹیلی جنس ایجنسیز کو پتہ ہے کہ دہشت گرد کہاں ہیں؟ خورشید شاہ نے مہاجروں کی توہین کی۔ مہاجروں نے پاکستان کے لئے بہت قربانیاں ہیں۔ بیان پر بطور احتجاج سندھ حکومت سے علیحدہ ہوئے مہاجر کا لفظ ہماری شناخت ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر راجہ ظفرالحق نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے۔ انٹیلی جنس شیئرنگ کو پتہ ہونا چاہئے۔ وزیر مملکت برائے صحت سائرہ افضل تارڑ نے وقفہ سوالات کے دوران کہا ملک میں ایڈز ٹریٹمنٹ کے 18 سنٹر ہیں۔ مظفر آباد، تربت اور کوئٹہ میں ایڈز ٹریٹمنٹ کے تین سنٹر کھولے گئے ہیں۔ بنوں میں بھی آئی ڈی پیز کے لئے ملک میں ہیپاٹائٹس کے علاج کے سنٹر کو دے دئے گئے۔ این جی اوز ایڈز میں مبتلا مریضوں کی مدد کرتی ہیں۔ بیماری کے تدارک کی آگاہی کے لئے علماء اور سماجی شعبہ کی خدمات حاصل کرنی ہو گی۔ ملک میں ایڈز کے 10 ہزار مریضوں کو علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔ 2002ء سے اب تک پاکستان میں 760 مریضوں کی موت واقع ہو چکی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ علاوہ ازیں سینٹ میں صدر مملکت ممنون حسین کے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر بحث کا آغاز آج سے ہو گا۔ علاوہ ازیں ایوان بالا سے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے استحقاق، استثناء بل 2014ء واپس لے لیا۔ صحافیوں کے تحفظات دور کرنے کے بعد بل دوبارہ ایوان میں پیش کروں گا۔ جمعرات کو سینٹ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ بدھ کو ایوان میں پیش کئے جانے والے بل پر صحافیوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، وہ میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں فوری طور پر ایوان سے اپنا بل واپس لینے میں مذکورہ کلاز ازسرنو جائزہ لے گا۔ دوبارہ بل ایوان میں پیش کیا جائے گا۔ وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ملکی سرحدوں کی حفاظت پاک فوج کی ذمہ داری ہے تاہم جہاں سے تجارت ہو رہی ہے ان راستوں سے فوج کا کوئی تعلق نہیں اور تجارتی روٹس کا انتظام متعلقہ وزارتیں اور محکمے کرتے ہیں۔