توانائی منصوبوں کیلئے امداد نہ ملنے پر ایل این جی فوری درآمد کرنیکا فیصلہ
لاہور (ندیم بسرا) عالمی تنظیموں اور ڈونرز ایجنسیوں کی طرف سے ہائیڈل اور توانائی کے دیگر منصوبوں کیلئے امداد نہ ملنے اور قرضہ نہ ملنے کے باعث حکومت نے فوری طور پر ایل این جی درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایل این جی درآمد کرنے کے باوجود 2015ءکی گرمیوں میں بجلی کی کمی 8 ہزار میگاواٹ رہے گی جس کو پورا کرنے کیلئے شہروں اور دیہات میں 10 سے 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کرنا پڑے گی۔ تفصیلات کے مطابق حکومت پاکستان‘ وزارت پانی و بجلی‘ متبادل توانائی بورڈ‘ وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل پانی‘ متبادل توانائی اور گیس کے نئے منصوبے لانے اور بجلی پیدا کرنے میں 2013ءاور 2014ءمیں مکمل ناکام رہے ہیں۔ واپڈا کی طرف سے تربیلا ڈیم کے چوتھے توسیعی منصوبے کے تحت 1410 میگاواٹ بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ اس پر 840 ملین ڈالر کی لاگت آتی ہے مگر یہ منصوبہ 2019ءمیں مکمل ہو گا۔ 969 میگاواٹ کا نیلم جہلم ہائیڈرو پاور منصوبہ 2014ءمیں مکمل ہونا تھا مگر یہ مزید 3 برس تاخیر کا شکار ہے۔ کراچی میں نیوکلیئر پاور پلانٹ منصوبے سے 11 سو میگاواٹ بجلی ملے گی مگر یہ منصوبہ بھی 2019ءمیں مکمل ہو گا۔ جس کی لاگت 4 اعشاریہ 8 ارب ڈالر ہو گی۔ حال ہی میں بھارت نے قطر کے ساتھ ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ کیا ہے جس کا ٹیرف 10 ڈالر سے 12 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (MMBTU) ملین میٹرک برٹش تھرمل یونٹ ہو گا۔ مگر پاکستان نے 17 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کے ساتھ این ایل جی گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حالانکہ 2013ءمیں بنکاک میں ہونے والی تیسری ایشیائی انرجی کانفرنس میں ایل این جی ٹی ایم ایم بی ٹی یو کی سفارش 9 ڈالر رکھنے کا کہا گیا تھا۔ ملک کے اندر بجلی اور گیس کی ضروریات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان اس وقت ملکی توانائی کا صرف 41 فیصد پیدا کرتا ہے اور ہر سال 52 ارب ڈالر تیل کا درآمدی بل ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں بجلی اور گیس کے جاری بحران کے نتائج خوفناک سامنے آ رہے ہیں۔ اس سے ملک کی اقتصادی بہبود اور استحکام کو خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔
ایل این جی