بھارتی مزاحمتی کوششوں کے باوجود لندن میں کشمیری عوام کا ملین مارچ اور استصواب کے حق کا تقاضہ…برطانیہ اپنے ہی پیدا کردہ تنازعہ کشمیر کے یو این قراردادوں کے مطابق حل کیلئے پیشرفت کرے
برطانیہ میں مقیم کشمیری برادری کے ہزاروں افراد نے مسئلہ کشمیر کو عالمی برادری کے سامنے اُجاگر کرنے کے لئے اتوار کے روز لندن شہر کے تاریخی ٹریفالکر سکوائر سے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی رہائش گاہ تک احتجاجی مارچ کیا اور برطانوی وزیراعظم کو ایک یادداشت پیش کی۔ برطانیہ میں مقیم سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود نے اس سلسلہ میں گزشتہ روز بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ لندن میں کشمیریوں کا یہ تاریخی مارچ ہو گا جس میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری شرکت کریں گے۔ ان کے بتائے گئے فگر کے مطابق برطانیہ کے 25 ارکان پارلیمنٹ بشمول شبانہ محمود، لارڈ نذیر احمد، رحمان چشتی اور خالد محمود نے بھی کشمیریوں کے اس ملین مارچ میں شرکت کی جبکہ آل پارٹیز کشمیر کمیٹی برطانیہ کے چیئرمین ایڈورگر اور یورپین پارلیمنٹ کے رکن سجاد کریم بھی کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لئے اس مارچ میں شریک ہوئے۔ اس مارچ کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب عالمی برادری کی توجہ مبذول کرائی گئی اور واضح کیا گیا کہ جنوبی ایشیامیں حقیقی اور پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ناممکن ہے۔ مارچ کے شرکاء نے برطانوی پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے برطانوی حکومت پر کردار ادا کرنے کے لئے دبائو ڈالے۔
تقسیم ہند کے وقت ریاست جموں و کشمیر میں تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق کشمیری عوام کو حق خود ارادیت کا موقع نہ دے کر چونکہ کشمیر کا تنازعہ کھڑا کرنے میں خود برطانیہ نے بھارت کی معاونت کی تھی اس لئے اس دیرینہ مسئلہ کو تقسیم ہند کے فارمولے کے مطابق طے کرانے کی بنیادی ذمہ داری بھی برطانیہ پر ہی عائد ہوتی ہے جس کی رہنمائی کے لئے اس وقت یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادیں بھی موجود ہیں جن میں کشمیری عوام کے رائے دہی کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی گئی تھی، اگر اُس وقت کشمیری عوام کو یو این قراردادوں کے مطابق استصواب کا حق دے دیا جاتا تو تاجِ برطانیہ کی سرپرستی میں بھارت کی جانب سے پیدا کیا گیا کشمیر کا تنازعہ کب کا طے ہو چکا ہوتا اور کشمیری عوام اپنی امنگوں کے مطابق پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر کے پُرسکون اور مطمئن زندگی بسر کر رہے ہوتے جبکہ پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت کے مابین بھی خوشگوار دوستانہ تجارتی مراسم استوار ہو چکے ہوتے جس کی روشنی میں دونوں ممالک اور ان کے عوام شاہراہ ترقی پر گامزن ہو کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں اپنا وجود تسلیم کرا چکے ہوتے مگر بدقسمتی سے ہندو لیڈر شپ نے ’’مہا بھارت‘‘ کی کوکھ سے نکالے گئے آزاد و خود مختار پاکستان کے وجود کو برداشت نہ کرتے ہوئے اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی شروع دن سے ہی منصوبہ بندی کر لی تھی اس لئے اس نے پہلے تو مسلم اکثریتی آبادی کے فارمولے کے تحت کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا جس کے لئے اسے تاجِ برطانیہ کی آشیرباد حاصل تھی اور پھر اس نے آزاد وادی میں اپنی افواج داخل کر کے زبردستی اس پر اپنا تسلط جما لیا جس کے بعد نہرو کشمیر کا اپنا ہی پیدا کردہ تنارعہ حل کرانے کے لئے اقوام متحدہ جا پہنچے مگر ہٹ دھرمی ایسی کہ یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا تو بھارتی لیڈر شپ جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں سے ہی منحرف ہو گئی جس کے بعد بھارتی آئین میں ترمیم کر کے مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا گیا۔ اس ہٹ دھرمی اور تسلط کا بنیادی مقصد پاکستان کے آزاد و خود مختار وجود کو پنپنے نہ دینے کا تھا جس کے لئے بھارت کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریائوں کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا تھا، بھارت کی نیت کا یہ فتور پاکستان کے قائم ہونے کے 68 سال بعد آج بھی قائم ہے۔ اس نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں، ایک سازش کے تحت اسے دولخت کیا اور باقیماندہ پاکستان کی سالمیت ختم کرنے کی نیت سے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور ہر قسم کے جدید اور روایتی ہتھیاروں کے ڈھیر لگا لئے جو خطے کے کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں، صرف پاکستان کی سلامتی کے خلاف استعمال کرنے کی نیت سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کی سابق حکمران کانگرس آئی بھی پاکستان دشمنی میں پیش پیش تھی مگر موجودہ حکمران بی جے پی کا تو منشور اور ایجنڈہ ہی پاکستان دشمنی پر مبنی ہے جس نے اس ایجنڈے کے تحت پاکستان دشمنی کو فروغ دے کر گذشتہ انتخاب لڑا اور حکمرانی کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے ساتھ ہی نریندر مودی نے پاکستان دشمنی پر مبنی اپنی خصلتوں کے جوہر دکھانا شروع کر دئیے، ان کے اقتدار میں آتے ہی سرحدی کشیدگی میں جس تیز رفتاری سے اضافہ ہوا اس کی پاکستان بھارت کشیدگی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ بی جے پی حکومت نے کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو بھی بڑھایا، پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر کو بھی متنازعہ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور پھر کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پاکستان کے اندر بھارتی سکیورٹی فورسز کی روزانہ کے حساب سے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جس میں اب تک بیسیوں بے گناہ شہری اور سکیورٹی اہلکار شہید ہو چکے ہیں، سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں اور ہزاروں نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں، صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، مودی سرکار گاہے بگاہے پاکستان کو سبق سکھانے کی دھمکیاں دیتی بھی نظر آتی ہے جس پر عالمی برادری میں احتجاج ہوتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالثی کی پیشکش کی جاتی ہے تو اس پر بھارت سرکار کے مزاج مزید برہم ہو جاتے ہیں، اس سلسلہ میں بھارت سرکار یو این سیکرٹری جنرل بانکی مون، امریکی صدر اوباما، چین کے صدر اور یورپی یونین کی پارلیمنٹ کو مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے کردار کی پیشکش پر بے نقط سُنا چکی ہے جبکہ خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر طے شدہ پاکستان بھارت مذاکرات بھی مودی سرکاری نے خود ہی سبوتاژ کر دئیے ہیں۔ بھارت کا پیدا کردہ کشیدگی کا یہی وہ ماحول ہے جس سے عاجز آ کر بیرون ملک مقیم کشمیری باشندوں نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لئے اپنی اپنی سطح پر متحرک ہونے اور لندن میں ملین مارچ کے اہتمام کا فیصلہ کیا جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ جنونی عزائم کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اسلحہ کی خریداری کے معاہدے کر کے اور اس کی معاونت سے بھارت میں اسلحہ سازی فیکٹریاں لگانے کی راہ ہموار کر کے بھی جدید اور روایتی جنگی ساز و سامان خریدنے کے جنون میں ہے جسے عملی قالب میں ڈھالنے کے لئے بی جے پی حکومت نے گذشتہ روز سوویت یونین دور کے پرانے اسلحہ کو جدید بنانے اور داخلی طور پر دفاعی پیداوار بڑھانے کے لئے 3 اعشاریہ ایک ارب ڈالر کے منصوبوں کے اجرا کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ بھارتی وزیر دفاع ارون جیٹلی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کیا گیا جو پہلے ہی پاکستان کو براہ راست جارحیت کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔ اس منصوبے کے تحت بھارت فضائی نگرانی والے جہاز اور اسرائیل سے 8356 ٹینک شکن گائیڈڈ میزائل خریدے گا اور اندرون ملک وہ چھ سٹیلتھ آبدوزیں تیار کرے گا۔ پہلے ہی ہر قسم کے اسلحہ سے لیس بھارت کو جب دفاعی صلاحیتوں میں اضافے والی مزید کمک حاصل ہو گی تو اس کا علاقے پر تھانیداری والا جنون بھی ابھرے گا اور اس کے ہاتھوں پاکستان کی سلامتی مستقل طور پر خطرے میں رہے گی۔ اس صورتحال میں پاکستان اور کشمیری عوام کی جانب سے بھارتی جنونی عزائم سے دنیا کو ہمہ وقت آگاہ رکھنا اور یو این قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا تقاضہ کرنا ہی بہترین حکمت عملی ہے جس کے لئے حکومت پاکستان بھی عملی پیشرفت کر رہی ہے اور اس سلسلہ میں وزیراعظم نواز شریف کی یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں کی گئی تقریر کے بعد پاکستان کی جانب سے کشمیر پر اپنے اصولی مؤقف پر ثابت قدم رہنے کا جو واضح عندیہ دیا جا رہا ہے اس سے ہی کشمیری عوام کو نیا حوصلہ ملا ہے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے گذشتہ روز بھی اسی تناظر میں باور کرایا ہے کہ بھارت ہماری امن پالیسی کو کمزوری نہ سمجھے، ہم بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب بھی دے رہے ہیں اور اسے اپنے طریقے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں یہ بھی باور کرایا کہ ہم اقوام متحدہ سے رابطے میں ہیں تاکہ کشمیر کا مسئلہ یو این قراردادوں کے مطابق حل کرایا جائے۔ کشمیر پر پاکستان کے اس واضح اور دوٹوک مؤقف کے بعد اب لندن میں کشمیریوں کے ملین مارچ نے یقیناً بھارتی مظالم اور ہٹ دھرمی کے خلاف دنیا کی آنکھیں کھول دی ہوں گی۔ بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان اکبر الدین کے بقول کشمیر کے مسئلہ کا حل اگر دونوں فریقوں کے مابین بات چیت سے ہی ممکن ہے جس میں وہ کسی تیسرے فریق کے کسی کردار کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں تو پھر بھارت ہی کی جانب سے کسی بھی سطح پر دوطرفہ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کا بھی دنیا کو نوٹس لینا ہو گا۔ آخر کشمیری عوام کو استصواب کے حق سے کب تک محروم رکھا جا سکتا ہے جبکہ کشمیر کا تنازعہ جتنا پیچیدہ ہو گا اتنا ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرات بڑھیں گے۔ اس لئے اب برطانیہ کو یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانے میں پیشرفت کرنی چاہئے اور اپنے شہری کشمیری عوام اور ارکان پارلیمنٹ کی رائے کا احترام کرنا چاہئے۔