عاشورہ محرم کے دوران اخوت اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کی ضرورت
محرم کا چاند نظر آتے ہی نئے قمری اور اسلامی سال کا آغاز ہو گیا۔ نیا قمری سال اہل اسلام کیلئے خوشیوں کی نوید نہیں لاتا سانحہ کربلا کی یاد تازہ کرتا ہے۔ پاکستان میں فرقہ واریت کی فضا محرم کے آغاز کے ساتھ عموماً گھمبیر ہو جاتی۔ تمام مسالک اپنے اپنے طور پر جہاں سید الشہدا کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں وہاں ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت کے مظاہرے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے ملک دشمن عناصر بھی فائدہ اٹھاتے ہیں بہر حال ایسے عناصر کو موقع ہم خوددیتے ہیں۔ محرم کے آغاز کے ساتھ ہی قوم ایک انجانے خوف میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے سکیورٹی کے ممکنہ اقدامات کے باوجود بھی کئی بار عاشورہ کے دوران خونیں واقعات ہو چکے ہیں۔ کسی ناخوشگوار واقعہ اور دہشت گردی سے بچنے کے لئے حکومت پنجاب نے فوج کی 75 کمپنیاں تعینات کرنے کی منظوری دی ہے۔ ملک بھر کے بڑے شہروں میں کئی علماء کے داخلے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ بعض کو نظر بند کیا گیا اور کئی کے خطابات پر پابندی لگائی گئی ہے۔ عاشورہ اور یوم عاشور پر سکیورٹی اقدامات فول پروف بنائے جانے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر اتحاد بین المسلمین اور فرقہ ورانہ ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی ضروری ہیں۔ اس کے لئے حکومتی سرپرستی میں سیمینارز کا اہتمام محرم سے قبل شروع ہو جانا چاہئے تھا یہ سلسلہ یوم عاشور کے پرامن گزرنے تک جاری رہنا چاہئے۔