وزرا کی غیر حاضری، قومی اسمبلی، سینٹ میں حکومتی، اپوزیشن ارکان کا شدید احتجاج
اسلام آباد (خبرنگار خصوصی+ خبرنگار+ ایجنسیاں+ نوائے وقت نیوز) قومی اسمبلی اور سینٹ میں وزراء کی غیرحاضری پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے شدید احتجاج کیا جبکہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ نے قومی اسمبلی میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد کے سینٹ کے غلط روایت قائم کرنے کے بیان پر انہیں ایک دن کیلئے ایوان بالا کی کارروائی میں حصہ لینے سے روک دیا۔ قومی اسمبلی میں وزراء کے نہ آنے پر حکومتی ارکان کے احتجاج میں اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔ رضا حیات ہراج نے کہاکہ وزراء حکومتی ارکان کی بات نہیں سنتے تو عام آدمی کا کیا حال ہو گا۔ حکمران جماعت کے ارکان نے حکومت کی جانب سے گندم اور کپاس کی نئی امدادی قیمت مقرر نہ کرنے اور زرعی پالیسی پر بھی احتجاج کیا۔ ارکان نے کہا کہ اگر حکومت نے کاشتکاروں کو ریلیف فراہم نہ کیا اور انہیں مل مالکان اور مڈل مین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تو اس ملک میں کسان آئندہ گندم ‘ چاول اور کپاس سمیت دیگر زرعی اجناس کاشت نہیں کریں گے ‘ ارکان نے کپاس اور گندم کی نئی امدادی قیمت کے تعین کے لئے ایوان کی خصوصی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا تاہم ڈپٹی سپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے رضا حیات ہراج اور دیگر ارکان کا نکتہ اعتراض قائمہ کمیٹی برائے نیشنل فوڈ سکیورٹی کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ کمیٹی 3 دن کے اندر ارکان کے تحفظات دور کر کے رپورٹ ایوان میں پیش کرے۔ ادھر سینٹ میں اس وقت شدید ہنگامہ آرائی شروع ہوگئی جب نقطہ اعتراض پر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ وزیر سائنس وٹیکنالوجی زاہد حامد نے سینٹ سے پاس ہونے والے بل کے حوالے سے قومی اسمبلی میں کہا کہ سینٹ غلط روایات قائم کررہی ہے، نہ صرف دو مرتبہ اس جملے کو دہرایا بلکہ اس کی وضاحت بھی کی، شدید مشکلات سے گذرنے کے باوجود حکومت نے سبق نہیں سیکھا۔ وزیر نے سینٹ کی توہین کی، وزیر موصوف کا ماضی میں جن سے تعلق رہا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ زاہد خان نے کہا کہ ایسے وزراء نے حکومت کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے، ان میں تو جرأت ہی نہیں کہ عمران خان کا سامنا کرتے، اس منسٹر کو ایوان سے باہر نکال دیں، ہم انہیں جواب نہیں دینے دیں گے، یہ وزیر نااہل ہے، یہ ساری ذمہ داری وزیراعظم کی ہے وہ سینٹ کو اہمیت نہیں دیتے اسی لئے وزراء بھی توہین کرتے ہیں، خواجہ آصف کمیٹی میں نہیں آتے دو مرتبہ وزیر اعظم کو خط لکھا مگر جواب تک نہیں آیا، انہوں نے ڈپٹی چیئرمین سے کہا کہ آپ آرڈر دیں ورنہ ہم زبردستی کریں گے، اگر آپ نہیں کریں گے تو ہم 2018ء تک کوئی ایک بھی قانون پاس نہیں ہونے دیں گے، ایک ہائوس میں دوسرے ہائوس کے خلاف بات ہورہی ہے، ہم نے کئی مرتبہ کہا کہ یہ رویہ تبدیل کریں، ہم یہ ہائوس ایک انچ بھی آگے نہیں چلنے دیں گے، اس دوران کئی مرتبہ زاہد حامد اپنی نشست سے کھڑے ہوکر جواب دینے کی کوشش کرتے رہے مگر اس دوران اپوزیشن ارکان مسلسل ’گو‘’گو‘ کے نعرے لگاتے رہے، جب معاملہ طول پکڑ گیا تو راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اپوزیشن کے جذبات کا انہیں احساس ہے، مگر قتل کے ملزم کو بھی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے، انہوں نے چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ رولنگ دے چکے ہیں، اس پر عمل کریں گے مگر ان کے فیصلے سے انہیں اختلاف ہے، سپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے زاہد حامد کو ایک دن کے لئے سینٹ کی کارروائی میں حصہ لینے سے روک دیا اور کہا کہ وہ چاہیں تو ہائوس سے چلے جائیں اور اگر چاہیں تو بیٹھے رہیں۔ منگل کو وقفہ سوالات بھی حکومت پر خاصا بھاری گزرا، چودھری شجاعت حسین کے تحریری جواب کے میٹرو بس کی کوئی فزیبلٹی تیار کی گئی تھی اور اس میں کتنے لوگ سفر کریں گے کے جواب میں منصوبہ کمیشن کی جانب سے بتایا گیا کہ میٹرو بس پر اتنے لوگ سفر کریں گے کہ اگلے الیکشن میں پنڈی اسلام آباد میں لوگوں کی ضمانتیں ضبط ہو جائیں گی۔ احسن اقبال کے جواب پر ایوان میں شدید ہنگامہ ہوا۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ دھرنوں سے ابھی حکومت بچی، مگر وزراء غیر سنجیدہ ہیں، ضمانتیں ہماری نہیں اب (ن) لیگ کی ضبط ہوں گی، اپوزیشن ہر بار حکومت کو بیل آئوٹ پیکج نہیں دے گی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ جنگلہ بس اسلام آباد کیلئے تباہی ہے جس کی لاگت پچاس ارب تک پہنچ چکی، قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے وفاقی وزیر احسن اقبال کی جگہ ایوان سے معذرت کی اور یقین دہانی کرائی کہ وفاقی وزیر مکمل تیاری کے ساتھ اس سوال کا جواب دیں گے۔ ایک اور سوال پر رضا ربانی برہم ہو گئے اور کہا کہ وفاقی وزیر ایوان کی توہین کر رہے ہیں ان کے خلاف تحریک استحقاق لانی چاہئے، سوال کی اجازت نہ ملنے پر اے این پی کے پارلیمانی لیڈر حاجی عدیل ایوان سے واک آئوٹ کر گئے جس کے ساتھ ہی پوری اپوزیشن ایوان سے اٹھ کر چلی گئی۔