• news

کابل کیساتھ امن، حکومت اور فوج کی حکمت عملی میں تضاد ہے: انٹرنیشنل کرائسز گروپ

لندن (بی بی سی+ نیٹ نیوز) ایک بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کی افغانستان کیساتھ تعلقات میں بہتری کی کوششوں کی راہ میں بہت سے مسائل حائل ہیں۔ کرائسسز گروپ کے چیف پالیسی افسر جوناتھن پرینٹس نے کہا ہے کہ کابل کیساتھ امن قائم کرنے کیلئے حکومت کی ترجیحات اور فوج کی حکمت عملی میں زبردست تضاد ہے۔ بی بی سی کے مطابق انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے اپنی تازہ رپورٹ ’’ری سیٹنگ پاکستانز ریلیشن شپ ود افغانستان‘‘ یعنی افغانستان کیساتھ پاکستان کے رشتے کی بحالی میں وزیراعظم نوازشریف کی حکومت کے سامنے افغانستان کے ساتھ رشتوں کی بحالی میں درپیش مسائل کا تجزیہ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق معیشت کو مستحکم کرنے کا نوازشریف حکومت کا عہد سکیورٹی کی عدم موجودگی میں پورا ہوتا نظر نہیں آرہا، اسی سبب نوازشریف نے افغانستان کے ساتھ باہمی تنازعات کم کرنے اور تبدیلی کے دور کے بعد والے افغانستان کے استحکام میں تعاون دینے کیلئے افغانستان کی جانب قدم بڑھایا تاکہ اس سے پاکستان کے اپنے استحکام میں اضافہ ہو۔ افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی نے نوازشریف کے طرزعمل کا خیرمقدم کیا ہے تاہم نوازشریف کو ملک میں سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔ افغانستان کے ساتھ باہمی کشیدگی کم کرنے کی نوازشریف حکومت کی کوششوں کی کامیابی بہت حد تک فوج سے سیاسی سپیس حاصل کرنے کی صلاحیت پر منحصر ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت ابھی تک اپنے دام پھینک رہی ہے، وہ براہ راست یا پھر بالواسطہ ’’تازہ بغاوت‘‘ کو تعاون دے رہی ہے جس سے افغانستان میں آنیوالی تبدیلی اثرانداز ہورہی ہے۔ حالیہ حکومت مخالف مظاہروں نے فوج کی اپنی بات منوانے کی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے اور افغانستان پالیسی کے ضمن میں بھی یہ بات سامنے آسکتی ہے۔ اگرچہ سکیورٹی پالیسی پر فوج کا کنٹرول اس راہ میں رکاوٹ ہے تاہم بہتر تعلقات کے کئی مواقع موجود ہیں۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان سڑک اور ریل رابطے کے بنیادی ڈھانچے وسیع اور بہتر کئے جاتے ہیں، پریشان کن سکیورٹی اقدام میں کمی کی جاتی ہے اور سرحد پار آنے جانے کی سہولتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو پاکستان افغان معاشی تعلقات کو تقویت ملے گی اور دونوں ممالک اس سے مستفید ہوں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ پاکستان میں رہنے والے لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی غیرمحفوظ اور عدم یقین سے پر زندگی میں آسانیاں پیدا کرے۔ اسے چاہئے کہ وہ 1951ء کے ریفیوجی کنونشن اور اپنے 1967ء کے پروٹوکول پر دستخط کرے اور اسکی توثیق کرے۔ ساؤتھ ایشیا پراجیکٹ ڈائریکٹر اور ایشیائی امور کی سینئر ایڈوائزر ثمینہ احمد کا کہنا ہے کہ حکومت اس بات سے پوری طرح آگاہ ہے کہ ملک کی سلامتی مستحکم افغانستان پر منحصر ہے، اس نے اس راہ پر چند ابتدائی قدم اٹھائے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگر افغانستان مستحکم ہوتا ہے تو اسکی معیشت بھی مستحکم ہوگی، اسکے نتیجے میں باہی تجارت اور تجارتی لین دین میں اضافہ ہوگا اور پاکستان کو فائدہ پہنچے گا۔

ای پیپر-دی نیشن