• news

نیلو فر کی پکار مگر بلاول میری بھی نہیں سنتا

 ”صدر“ زرداری نے فرمایا ہے کہ بلاول میری بھی نہیں سنتا۔ تو پھر وہ کس کی سنتا ہے؟ اس نے اب تک صرف ”صدر“ زرداری کی مانی ہے۔ وہ بلاول زرداری تھا۔ اسے زرداری صاحب نے بلاول بھٹو زرداری بنایا تھا۔ وہ بن گیا۔ یہی اس کے حق میں مفید تھا۔ یہ شاید ”صدر“ زرداری کی کامیاب روائتی مگر منفرد سیاست کا آغاز تھا۔ اور وہ اس آغاز کے راز سے پوری طرح باخبر ہیں۔ ”صدر“ زرداری نے اپنے نابالغ بیٹے کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنا دیا۔ یہ اپنے بیٹے پر احسان نہ تھا۔ خود اپنے اوپر بھی احسان تھا۔ بلکہ احسان عظیم تھا۔ کیسے آسانی سے ایک زرداری کو بھٹو کے جیالے پارٹی کا چیئرمین قبول کر لیتے کیونکہ ہمارے مفاد پرست خوشامدانہ غلامانہ انداز کے سیاستدان چڑھتے سورج کے پجاری ہیں۔ انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ آدمی طلوع ہونے والا ہے۔ وہ غروب کے معانی بھی اس وقت تک نہیں جانتے جب تک کوئی غروب نہیں ہو جاتا۔ پھر شریک چیئرمین کو ہی اصلی تے وڈا چیئرمین خود بخود بنا لیا۔ صدارت بھی کی اور حکومت بھی کی۔ پارلیمانی نظام میں صدارت کو ملک کا نعم البدل بنا لینا زرداری سیاست کا ایک کرشمہ ہے۔ کیا کوئی صدر ممنون اور ”صدر“ زرداری کا موازنہ بھی کر سکتا ہے؟ ہماری پارلیمانی جمہوریت کے تماشے دیکھنے لائق ہیں۔
اب بھی بلاول براہ راست ”صدر“ زرداری کے زیرتربیت ہے۔ صنم بھٹو (ماسی) اور فریال تالپور (پھوپھی) بلاول بھٹو زرداری کے دائیں بائیں ہیں۔ یہ نوجوان اب بھٹو اور زرداری دونوں قبیلوں کے فائدے اور مزے لوٹ رہا ہے۔ میں نے لندن کشمیر مارچ اور طاہر قادری اور عمران خان کے لندن پلان کا موازنہ کیا اور صرف اتنا کہا کہ ایک قومی مسئلے پر جو کچھ کیا گیا۔ وہ مناسب نہ تھا۔ عمران خان کے بھانجے حسن یا حسان نیازی کا بلاول کے خلاف مظاہرہ اچھا نہ تھا۔ اس کا موقع نہ تھا۔ ہزار موقعے اور بھی آئیں گے۔ اس سے تو بلاول کو فائدہ ہوا۔ میں نے اس کے لئے کالم لکھا تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ شکر ہے بلاول کے خلاف احتجاج کرنے والا برادرم حفیظ اللہ نیازی کا بیٹا نہیں ہے۔ مگر میرے دوست رﺅف طاہر نے بتایا کہ وہ حفیظ اللہ کا بیٹا ہے۔ حفیظ اللہ نیازی عمران خان (نیازی) کا محسن ہے مگر عمران نے اپنے بھائیوں کو ناراض کیا۔ میانوالی میں اسی گھر سے عمران کے والد میرے مشفق اور مہربان محترم اکرام اللہ خان نیازی کا جنازہ اٹھا تھا۔ وہ حفیظ اللہ، سعید اللہ خان کے چچا تھے۔ میرے بہت عزیز آرٹسٹ کاشف عمران ان کے بہت عاشق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ شریکے کی بات ہے۔ شریکا ہمارے ہاں دشمنی سے بھی خطرناک ہوتا ہے۔ اس سے آپ کا دھیان شریک چیئرمین پیپلز پارٹی ”صدر“ زرداری کی طرف نہ چلا جائے۔ وہ اگر خود کہتے ہیں کہ بلاول میری بھی نہیں سنتا تو کوئی بات تو ہے؟ اس حوالے سے صدر زرداری کے بہت قریب ڈاکٹر قیوم سومرو ضرور کچھ نہ کچھ جانتے ہوں گے۔ انہوں نے اپنی دوستی کے لئے ”صدر“ زرداری کے دوستوں کو دور کر دیا وہ آج کل سنیٹر ہیں۔ اللہ انہیں مزید نوازیں بلکہ اللہ کرے ”صدر“ زرداری انہیں مزید نوازیں۔ آج کل شیری رحمان بلاول کے اتنے ہی قریب ہیں جتنے رحمان ملک ”صدر“ زرداری کے قریب ہیں؟ میں نے سندھ ثقافتی میلے میں بختاور کو بلاول کے ساتھ ساتھ دیکھا۔ اور اب لندن کشمیر مارچ میں آصفہ کو اس کے ساتھ دیکھا تو مجھے اچھا لگا۔
پیپلز پارٹی کی ایک رکن سندھ اسمبلی نے جب کراچی کی طرف اٹھنے والے طوفان نیلوفر کا ذکر کیا تو پیپلز پارٹی کے سپیکر سراج درانی نے کہا کہ یہ نیلوفر کون ہے۔ کہاں ہے۔ سیاستدانوں کے سامنے کسی محترم خاتون کا نام بھی لے دو تو وہ بے تاب ہو جاتے ہیں۔ درانی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اسمبلی میں کسی رکن کا نام تو نیلوفر نہیں ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ طوفان ہے جو کراچی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پھر بھی درانی صاحب خوف زدہ نہیں ہوئے کہ نیلوفر اتنی ظالم نہیں ہو سکتی۔ یہ صفت صرف حکمران سیاستدان مردوں کے اندر پائی جاتی ہے۔
دنیا والے کتنے ستم ظریف ہیں کہ طوفان کا نام بھی نیلوفر رکھ دیا ہے۔ اور اسے مونث بنا دیا ہے۔ ایک طوفان کا ڈراوا عمران خان بھی سونامی کہہ کر دیتا ہے۔ سونامی بھی مونث ہے۔ اس کی نیگٹوٹیز بتا بتا کر ہم تھک گئے مگر عمران نہیں مانے۔ جب نیا شناختی کارڈ کا محکمہ بنا اور اس کا نام نادرا رکھا گیا تو لوگ اسے کوئی خاتون سمجھ کر لطیفے چلاتے رہے۔
برادرم آغا مشہود شورش نے بتایا کہ تاریخ ہمیشہ مردوں نے بنائی ہے۔ اس میں چند نام عورتوں کے بھی ہیں تو وہ مردوں سے بڑھ کر قابل، بہادر او رمضبوط اعصاب کی مالک تھیں۔ خدا کی قسم عورتوں کو پورا پورا موقع دیا جائے تو وہ کئی راستوں پر مردوں سے آگے نکل جائیں گی۔ پیچھے رہ کر بھی ان کا کنٹرول اور تعاون مردوں کی طاقت بنتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ عورت اپنے عورت ہونے کا مکمل ادراک کر لے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو خود لکھتی ہے اور خود اپنی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔
اور تاریخ بھی مونث ہے؟ آخر میں تاریخ ساز شخصیت شورش کاشمیری کے دو اشعار آئے ہیں۔ انقلاب لانے والے ہمیشہ ہمارے خواب بھی ہم سے چھین کر لے گئے۔ میں اس پر تبصرہ نہیں کرتا۔ سب کہانی اور واردات خود بخود آپ کے سامنے آ جائے گی۔ یہ اشعار شورش نے کئی برس پہلے لکھے تھے؟
ہر ایک دور میں ہم لوگ سوچتے ہی رہے
کٹے گی رات تو پھر آفتاب ابھرے گا
تمام عمر اسی کشمکش میں بیت گئی
کبھی عوام کا بھی انقلاب ابھرے گا

ای پیپر-دی نیشن