غیرقانونی احکامات ماننا غداری نہیں، مشرف کے کہنے پر شریک ملزموں کا اکٹھا ٹرائل نہیں ہو سکتا: پراسیکیوٹر
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت میں پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے جوابی دلائل میں کہا ہے کہ عدالت کے پاس اختیار نہیں کہ وہ کیس خارج کرے اور کیس کی دوبارہ تفتیش کروائے ایسا کرنے کے لئے اس کے پاس ٹھوس شواہد، متعلقہ مواد ریکارڈکا ہونا ضروری ہے معاونت کاروں کے خلاف تب کارروائی کی جاسکتی ہے جب وہ تفتیش میں ملزم ثابت ہوں، آئینی اصولوں کے تحت کسی بیان یا شواہد کے مخصوص حصہ کو اپنے حق اور مخالف میں استعمال نہیں کیا جا سکتا، شواہد مکمل طور پر استعمال ہوں گے، پارٹس میں من پسند حصے نہیں، تمام ریکارڈ عدالت کو فراہم کیا گیا ہے، شریک ملزم صرف وہ ہو گا جس نے صدر کو ایمرجنسی کے نفاذ کی ایڈوائس دی ہو دیگر ارکان پارلیمان، کورکمانڈرز اور سرکاری افسروں کے خلاف سنگین غداری کیس نہیں چلایا جا سکتا۔کیس کو منطقی انجام تک پہنچنا چاہئے، مشرف کو عدالت بلاکران کا بیان ریکارڈ کیا جائے اور پوچھاجائے 3نومبر 2007ء کی ایمر جنسی سمیت دیگر غیر آئینی اقدامات کس تناظر میں کئے۔ غیرقانونی احکامات ماننے پر کوئی سنگین غداری کا مرتکب نہیں ہوتا۔ اکرم شیخ نے کہا کہ فوجداری عدالت اس وقت تک ملزم کی گرفتاری کا حکم اور سمن جاری نہیں کر سکتی جب تک اس کے خلاف مکمل ثبوت نہ ہو اور گواہوں کے بغیر کسی کو سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ سنگین غداری کیس نیب کورٹ میں نہیں چلایا جا سکتا۔ جسٹس فیصل عرب نے سوال کیا کہ کیا استغاثہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر وزیراعظم کابینہ سے مشاورت کرتا ہے تو اس کی مشاورت بے معنی ہو گی اور ایڈوائس بھیجنے والے صرف وزیراعظم ہونگے جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ جس کے پاس اختیارات اور طاقت ہوتے ہیں وہی استعمال کرتا ہے مشاورت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اکرم شیخ نے کہاکہ گواہوں نے اپنے بیانات میں کہاہے کہ دوران تفتیش کسی بھی مقام پر ایسا ریکارڈ نہیں ملا جس سے ثابت ہو کر اس قت کے صدر نے وزیراعظم سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بارے میں مشاورت کی اور نہ ہی کوئی معاون ثابت ہو سکا جس کو شریک ملزم بنایا جا سکے جبکہ پرویز مشرف کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں 31 جولائی کے فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کے دوران اعتراف کیا کہ وزیراعظم نے صدرکو خط کے ذریعے تجویز بھجوائی۔