• news

خزاں چمن سے ہے جاتی،بہارراہ میں ہے

مژدہ ہو کہ آج سے تین برس پیشتر تیونس میں عرب بہار کے جو شگوفے پھوٹے تھے وہ اب کِھل کر سدا بہار پھول بن چکے ہیں-النہدہ پارٹی نے اُس عوامی بیداری کے نتیجے میں جمہوری نظام کی قیادت سنبھالی تھی جس کے نتیجے میںصدر زین العابدین بن علی مسندِ اقتدار سے اُٹھ بھاگے تھے اور سعودی عرب جا مقیم ہوئے تھے- نئی جمہوری حکومت نے دہشت گردوں کی پُرتشدد مخالفت کے باوجودحزبِ اختلاف کیساتھ آئینی اصلاحات کے مذاکرات کو بڑی حکمت اور تدبر کیساتھ پایہ¿ تکمیل تک پہنچایا-اِن اصلاحات کے نتیجے میں جمہوری نظام مستحکم ہوا -تین روز پہلے نئے عام انتخابات منعقد ہوئے - اِن انتخابات میں حزبِ اختلاف کی جماعت ”ندائے تیونس“ اکثریتی جماعت بن کر اُبھری-برسرِاقتدار اخوان المسلمون کی جماعت النہدہ نے فی الفور انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی شکست مان لی اور یوںآئندہ پانچ سال کے لیے ندائے تیونس اقتدار میں آ گئی-برسرِ اقتدار اخوان حکومت نے بڑی فراخ دلی سے، اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے اور عوام کے اجتماعی فیصلے کے آگے سرتسلیم خم کرتے ہوئے ندائے تیونس پارٹی کو مبارک باد پیش کر دی- جمہوریت کا یہ تسلسل پوری عرب دُنیا کے لیے ایک بے حد نیک فال ہے-
وزیراعظم مہدی جمعہ نے اپنے ردعمل میں درست فرمایا ہے کہ جمہوری عمل میں یہ تسلسل اور استحکام صرف ہمارے لیے ہی نہیں بلکہ ساری عرب دُنیا کیلئے اُمید اور روشنی کی ایک کرن ہے-تیونس میں دو سو سترہ منتخب اراکین پر مشتمل اسمبلی اب ایک نیا وزیراعظم چُنے گی- اِن نئے اراکینِ پارلیمنٹ میں جدّت پسند ، قدامت پسند اور سوشلسٹ جماعتوں کے نمائندے شامل ہیں- اپنے اجتماعی فیصلے سے یہ اراکین ایک پائیدار جمہوری نظام کی ضمانت بن جائیں گے- عرب بہارکی جنم بھومی میں جمہوریت کی یہ کامیابی خزاں زدہ عرب دُنیا کوایک نئی بہار کی آمد آمد کی خوشخبری ہے-
مصر میں منتخب صدرمحمد مُرسی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جس سفّاکی کے ساتھ صدر مُرسی کی اخوان المسلمون کے اراکین کو شہید کیا گیا، قید و بند میں ڈالا گیا اور اخوان المسلمون کے زیرِ اہتمام قائم رفاعی اداروں تک کو دہشت گرد قرار دیکر بند کر دیا گیا تھا، اُسکے ردعمل میں لہر در لہرد ہشت گردی ابھی تک تھمنے میں نہیں آ رہی-فقط دو روز پہلے کی بات ہے کہ ثنائی میں ایک دہشت گرد حملے میں تیس فوجی ہلاک کر دیئے گئے تھے-یہ دہشت گردی اُس سرکاری دہشت گردی کا ردعمل ہے جو آج کے مصر میں سکہ¿ رائج الوقت ہے-بلاشبہ ہر انداز کی دہشت گردی انتہائی نامبارک اقدام ہے مگر اِس سے نجات سلطانی¿ جمہور ہی سے ممکن ہے- خاندانی بادشاہت ہو یا فوجی آمریت، ہر دوصرف خوف و دہشت سے کام لیتی ہیں اور دہشت کا ردعمل دہشت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے-امن و محبت کا راستہ جمہوری فکر و عمل کا راستہ ہے-
-ابھی چند روز پیشتر( انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز بابت23 -اکتوبر2014ئ) تیونس میں جمہوری آزادیوں کے باعث نوجوانوں میں انتہا پسندی کے رجحانات کو ایک طویل خبرنامے کا موضوع بنایا گیا ہے-چونکہ اِس خبر کیلئے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی خاص واقعہ دستیاب نہیں ہوااِس لیے رپورٹر نے تیونس کے دارالحکومت کے مضافات کی ایک بستی کے کافی ہاﺅسز میں بیٹھے مختلف نوجوانوں سے گفتگو کی اور پھر اِس گفتگو میں سے نوجوانوں کی انتہا پسندی کے رجحانات برآمد کیے-رپورٹر کیلئے یہ امر حیرت کا باعث تھا کہ جمہوری تیونس کے چندنوجوان داعش (دولتِ اسلامیہ، عراق اور شام) کے حق میں استدلال پیش کرتے ہوئے پائے گئے- ایک نوجوان احمد کی دلیل پیشِ خدمت ہے:”دولتِ اسلامیہ ایک سچی خلافت ہے جس میں ہمیں کسی ایسے آمر کے احکامات صرف اِس لیے نہیں ماننے پڑتے کہ وہ امیر اور طاقتور ہے- یہ محض خیال آرائی نہیں بلکہ عمل کی دُنیا ہے جو بالآخر اپنا آپ منوا لے گی- “
ایک دوسرے کافی ہاﺅس میں بیٹھے نوجوان بلال نے دولتِ اسلامیہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے اِس یقین کا اظہار کیا کہ یہ جماعت اللہ کی رضا سے وجود میں آئی ہے اور بالآخر عرب دُنیا کی وہ ساری سرحدیں ختم کر کے دم لے گی جو جنگِ عظیم اوّل کے خاتمے پر برطانیہ اور فرانس نے قائم کی تھیں- عرب دُنیا کی وحدت کو ختم کر کے اسے کئی ٹکڑوں میں منقسم کر دینے کی حکمتِ عملی غلط تھی- ہمیں اِس وحدت کو دوبارہ حاصل کرنا ہے اور یہ وحدت دولتِ اسلامیہ کے قیام ہی سے ممکن ہے- نامہ نگار نے تیونس کے درجنوں نوجوانوں کے ساتھ اپنی گفتگو میں سرقلم کردینے کی سی تشدد پسند کارروائیوں پر بھی بات کی- اُن کا کہنا یہ ہے کہ اُن میں سے ہر ایک نوجوان اِس بدنما حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری تھا-اِس سلسلے میں اُنھوں نے ایک ٹیکسی ڈرائیور امر مسلمی نے تو یہ تک کہہ دیا کہ یہ سب افواہیںمغرب میں تراشی جاتی ہیں تاکہ انھیں پھیلا کے اسلام کو تباہ کر دیا جائے- یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس طرح کی ایجادِ بندہ قسم کی نامہ نگاری اپنے مخصوص مقاصد کی خاطر جمہوریت کو بدنام کرنے کی ایک کاوش ہے- ایک دوسری کاوش الجزائر کے سے ہمسایہ برادر ممالک سے القاعدہ کے مختلف گروہوں کی جانب سے قتل و غارت کی کاروائیاں ہیں-تیونس کی سیاسی قیادت لائقِ صد تحسین ہے کہ اُس نے قومی دائرے میں رہتے ہوئے حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں سے پُرامن اور محبت بھرے مذاکرات کے نتیجے میں ایک متفقہ جمہوری آئین وضع کروایا اور پھر اِس آئین کے تحت پرامن انتخابات کرائے - برسرِاقتدار پارٹی اِن انتخابات کے نتیجے میں شکست سے دوچار ہوئی تو اُس نے ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر انتخابات کے نتائج کو خوشدلی کے ساتھ قبول کیا- جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کی اور جلد از جلد اقتدار فتح یاب پارٹی کے سپرد کر دینے کے انتظامات شروع کر دیئے-مجھے یقین ہے کہ یہ جمہوری روایت ساری عرب دُنیا میں جڑیں پکڑ لے گی-احمد ندیم قاسمی نے کیا خوب کہا تھا:
جہاں سے شاخ ٹوٹی تھی ، وہیں سے شاخ پھوٹی ہے
نمو کی قوتیں ، اِس زخم کو بھرنے نہیں دیتیں


    

ای پیپر-دی نیشن