ایٹم بم امن قائم کرنے کیلئے ہے؟
یہ بات تو ”صدر جنرل“ مشرف کی غور طلب ہے کہ ضرورت پڑی تو ہم اپنی حفاظت کے لئے جوہری ہتھیار بھی استعمال کریں گے۔ بھارت کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزیوں اور اشتعال انگیزیوں کے بعد پاکستان کی طرف سے بہت حوصلہ افزا ردعمل آیا ہے۔ حکومت کے کچھ لوگوں نے بھی جرات مندانہ بیانات دیے ہیں۔
سب سے زبردست بات مشرف کی ہے۔ وہ آرمی چیف جرنیل تھے۔ صدر پاکستان تھے۔ اب یہ بات معنی رکھتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ہم جوہری ہتھیار استعمال کریں لیکن اگر ہماری ریاستی سکیورٹی خطرے میں پڑ گئی تو پھر کیا جوہری ہتھیار صرف نمائش کے لئے ہیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہماری میزائل ٹیکنالوجی بھارت سے بہتر ہے اور ہمسایہ ملک کے کئی بڑے شہر ہماری دسترس میں ہیں۔
ایٹم بم اصل میں ”صدر جنرل“ ضیاالحق نے بنایا۔ جب امریکہ کے لئے اتنا بڑا کام ہو رہا تھا کہ ایک سپرپاور کو افغانستان سے نکالا جا رہا تھا۔ یہ بات امریکہ کے لئے تب ناقابل یقین تھی۔ اب بھی حیرت انگیز ضرور ہے۔ افغانستان میں جنرل ضیا پاکستان کی جنگ لڑ رہا تھا۔ روس صرف افغانستان پر اکتفا نہ کرتا۔ اس نے ایران بھی جانا تھا اور پاکستان پر روس کی نظر بہت پہلے سے تھی۔ یہ الگ بات کہ اس صورت میں امریکہ کو کھلا میدان مل گیا اور اس نے عالم اسلام پر خاص طور پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔ جنرل ضیاءکو زندہ رہنے دیا گیا ہوتا تو میرے خیال میں عالم اسلام کی یہ حالت نہ ہوتی۔ جنرل ضیا کو راستے سے ہٹانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکہ کے لئے کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ تب آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل حمید گل اس لڑائی میں ایک ماسٹر مائند تھے۔ جنرل ضیا کو ہیڈماسٹر مائنڈ کہنا چاہئے۔ اس وقت حالت یہ تھی کہ امریکہ کی طرف سے اسلحہ اور دوسری فوجی امداد کافی اس علاقے میں پہنچی تھی مگر ایک بھی امریکی سپاہی یہاں نہ تھا۔ یہ جنگ تنہا جنرل ضیائ، پاک افواج مجاہدین آئی ایس آئی اور افغانستان کے جنگجو قبائل نے ساتھ مل کر لڑی۔ قیادت پاکستان کے پاس تھی۔ امریکہ افغان معاملے میں پھنسا ہوا تھا۔ یہ جنگ بھی جنرل ضیا نے جیتی اور اس دوران ایٹم بم بھی بنا لیا۔ اس بات کا کریڈٹ جنرل ضیا کو جاتا ہے اور یہ کریڈٹ بھٹو صاحب سے کم نہیں ہے۔ ورنہ بھٹو کو تختہ دار تک لے جانے والا امریکہ پاکستان کو آسانی سے کیوں ایٹم بم بنانے دیتا۔ نواز شریف نے ایٹمی دھماکے کس ملک کے خلاف کئے۔ یہ بھی بہت بڑا کریڈٹ ہے۔ ان سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ یہ دھماکے کس ملک کے خلاف کئے گئے تھے۔ آج بھارت دوستی کی یکطرفہ خواہش اور کوشش کس طرح مناسب ہے؟
وہ بات جو جنرل مشرف نے کی ہے ایک مختلف ڈپلومیسی اور حکمت سے جنرل ضیاءنے کر دی تھی۔ اس کا نتیجہ فوراً نکل آیا مگر جنرل مشرف کی بات ابھی تک منتظر ہے کہ کوئی حکومت کا آدمی کسی نئی حکمت کے ساتھ یہ بات کر دکھائے۔ حکومت اور حکمت میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کوئی فیصلہ ہوجو اس فاصلے کو کم کرے۔
جنرل ضیا کے زمانے میں بھی بھارتی فوجیں پاک سرحد پر آن کھڑی ہوئی تھیں۔ اور خطرات بڑھ گئے تھے۔ جنرل ضیاءنے بھارت میں کرکٹ میچ دیکھنے کا ارادہ کیا اور بغیر دعوت کے وہاں جا پہنچا۔ ہم میچ تو ہار گئے مگر یہ میچ جیت گئے کہ بھارتی فوجیں دوسرے دن واپس چلی گئیں۔ جنرل ضیاءنے ائر پورٹ پر پاکستان کے لئے واپسی کے وقت بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے اتنا کہا کہ تم بڑا ملک ہو۔ ہم پر چڑھائی کرو۔ ہماری فوج بھی کم نہیں ہے۔ ہم ڈٹ کر مقابلہ کریں گے مگر یہ یاد رکھو کہ ہمارے پاس وہ ”چیز“ بھی ہے۔ سب جانتے ہیں وہ ”چیز“ ایٹم بم ہے۔ ہم نے ایٹم بم چلایا تو نہ تھا مگر جو ایٹم بم کا کام ہے وہ جنرل ضیاءنے کر دکھایا۔ کچھ کام تو جنرل مشرف نے کر دیا ہے باقی کا کام ہمارا ہے، دیکھیں یہ جرات کب ہوتی ہے۔ اگر مودی کو پتہ ہو کہ ہمیں اپنے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان کسی کشمکش میں کوئی فیصلہ کرنا پڑے تو ہم کر گزریں گے۔ یہ فیصلہ ہو یا نہ ہو مگر اتنا کافی ہے۔ کسی کی جرات نہیں کہ وہ پاکستان کو دھمکیاں دے یا کمزور سمجھے۔
اب مرشد و محبوب نظامی کی یاد آتی ہے۔ ان کی یاد سے ہمارا دل ہر وقت آباد رہتا ہے۔ جنرل ضیاءبھارت جا رہے تھے۔ مجید نظامی کو دعوت دی۔ اس مرد مجاہد نے فرمایا کہ اگر تم ٹینک پر بیٹھ کر بھارت جا رہے ہو تو میں تمہارے ساتھ جانے کے لئے تیار ہوں۔ جنرل ضیاءنے کہا کہ وہ موقع آئے گا اور ہم آپ کو کیسے بھلا سکتے ہیں۔ ہم مجید نظامی کو کبھی نہیں بھلا سکتے۔ نظامی صاحب نے میری موجودگی میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے اجلاس میں کہا تھا کہ مجھے ایٹم بم کے ساتھ باندھ کر دشمن ملک کے کسی شہر میں پھینک دو۔ نظامی صاحب خود بھی کئی ہزار ایٹم بموں سے زیادہ طاقت رکھتے تھے۔ دشمن ان سے بری طرح خوفزدہ تھا۔
ایٹم بم چلانے کے لئے نہیں ہوتا مگر جس کام کے لئے ہوتا ہے وہ تو ایٹم بم سے لینا چاہئے۔ آج جو ملک تیسری دنیا مسلم دنیا کے ایٹم بم بنانے کے خلاف ہے اسی نے جاپان پر ایٹم بم پھینکا تھا۔ کوئی ضرورت تو امریکہ کو پڑی تھی؟ ہمیں ایسی ضرورت کبھی نہیں پڑے گی کہ ہم امن دوست ملک ہیں۔ مگر کوئی ضرورت ہمیں پڑی تو ہم پہلے بتائیں گے کہ ہمارے پاس وہ ”چیز“ ہے۔ اور ہم نے یہ کھلونا صرف کھیلنے کے لئے نہیں بنایا۔
یہ ایک ریٹائرڈ جنرل کی خواہش ہے تو پھر یہ کسی حاضر سروس جرنیل کی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا کہ اگر ضرورت پڑی تو۔؟ تو ہم اپنے ہمسایہ ملک سے کہتے ہیں کہ ہمیں اتنا تنگ نہ کرے۔ کوئی بھی صورت ہوئی تو ہمارا نقصان بھی ہو گا۔ مگر بھارت کا نقصان ناقابل تلافی ہو گا۔ وہ ایک بڑا ملک ہے۔ پرویز رشید نے بھی کہا ہے کہ بھارت اپنے جائز عزائم میں اللہ کرے کامیاب ہو مگر خواہ مخواہ اپنے آپ کو تنازعات میں الجھا کر وہ اپنا راستہ گم کر دے گا۔ ہم کوئی نیا تنازعہ نہیں کھڑا کر رہے۔ یہ تنازعہ خود بھارت کا پیدا کردہ ہے۔ کشمیر کے لئے بھارت اپنی کمٹمنٹ پوری کرے۔ بھارت اگر ہمیں دھمکیاں دینے کی باتیں کر سکتا ہے تو کیا ہمیں بات کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔ مشرف کے بقول نریندر مودی اگر موڈ دکھائے گا تو ہم بھی بہت موڈی لوگ ہیں۔